پیر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں حکومت نے برق رفتاری کے ساتھ چھ ترمیمی بلز منظور کرائے۔
پاکستان کی پارلیمان نے آرمی چیف اور دیگر سروسز چیف کی مدتِ ملازمت پانچ سال کرنے کا بل کثرتِ رائے سے منظور کیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پیش کیے گئے پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان نیول ایکٹ 1961 اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 میں ترمیم کے بل بھی منظور کر لیے گئے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کیے جانے والے ان بلوں کے مطابق تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے کا بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔
پاک فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہو گا۔ تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت میں آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔
اپوزیشن ارکان نے اس دوران شدید احتجاج کرتے ہوئے بلز کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
اپوزیشن نے اس دوران بھرپور شور شرابہ کیا جس کی وجہ سے اسپیکر ایاز صادق رسمی طور پر ‘یس’ اور ‘نو’ کا پوچھتے رہے۔ لیکن تمام بلوں کی تمام شقوں کو منظور کر لیا گیا۔
ان بلوں کی منظوری کے لیے حکومت کو سادہ اکثریت کی ضرورت تھی اور اس کے لیے ‘یس’ اور ‘نو’ کے ذریعے فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافے کا بل پیش کیا جس کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 تک کر دی جائے گی۔
اس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ایوان میں پیش کیا گیا۔ اس سے قبل یہ آرڈیننس تھا جو اب قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد ایکٹ بن سکے گا۔
اسی کے ساتھ وزیرِ قانون نے اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2024 قومی اسمبلی میں پیش کیا اور بتایا کہ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد نو سے بڑھا کر 12 کی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی بل 2024 اور ہائی کورٹس کی ججز بڑھانے سے متعلق تینوں بل بھی پارلیمان سے کثرتِ رائے سے منظور کر لیے گئے۔