اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی امر بالمعروف پولیس نے ’ہیئرسٹائل‘ بنانے پر متعدد شہریوں اور حجاموں کو حراست میں لیا ہے جبکہ نماز کی ادائیگی میں کوتاہی پر بھی گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔
جمعرات کو جاری کی گئی رپورٹ میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ قوانین کے نفاذ کے پہلے 6 مہینوں میں اس کے تحت کی جانے والی نصف سے زیادہ گرفتاریاں ایسے شہریوں کی کی گئیں جو یا تو داڑھی کی لمبائی یا بالوں کی تراش قواعد کے مطابق نہیں کر رہے تھے۔ اور ایسے حجام بھی گرفتار کیے گئے جو داڑھی اور بال کاٹتے ہوئے قواعد کو ملحوظ نہیں رکھتے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امر بالمعروف وزارت کے ماتحت پولیس اپنی من مانی کرتی ہے اور شہریوں کی گرفتاری کرتے وقت قانون اور اس پر طریقہ کار کے مطابق عمل نہیں کیا جاتا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ رمضان کے مہینے کے دوران فرض اجتماعی نمازوں میں مردوں کی حاضری پر کڑی نظر رکھی گئی، جس کے نتیجے میں بعض اوقات ایسے شہریوں کو حراست میں لیا جاتا جو مسجد میں موجود نہیں ہوتے تھے۔
اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ افغانستان میں حکومتی اقدامات نے خواتین اور مردوں کو یکساں متاثر کیا ہے، خاص طور پر چھوٹے کاروبار جیسے کہ نجی تعلیمی مراکز، حجام اور ہیئر ڈریسرز، درزی، شادی بیاہ کے کیٹررز اور ریستوران۔ طالبان انتظامیہ کے اقدامات کی وجہ سے آمدنی اور روزگار کے مواقع میں کمی ہوئی جبکہ چند شعبوں میں مکمل نقصان ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قوانین کے نفاذ کے بالواسطہ اور بالواسطہ سماجی و اقتصادی اثرات افغانستان کی سنگین معاشی صورتحال کو مزید پیچیدہ کر سکتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ حکام کی جانب سے خواتین پر تعلیم اور کام پر پابندی سے ملک کو سالانہ 1.4 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 3,300 سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو کام سونپا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو قانون کے بارے میں آگاہ کریں اور اس کا نفاذ یقینی بنائیں۔