امریکہ، اسرائیل اور ایک نئے بین الاقوامی ادارے کے نمائندے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے سے متعلق ایک معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
حکام کے مطابق امداد پر فلسطینی تنظیم حماس کا کوئی کنٹرول نہیں ہو گا۔ یہ بات امریکی خبر رساں ویب سائٹ axios نے اسرائیلی حکام اور ایک امریکی ذریعے کے حوالے سے بتائی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ نئی حکمت عملی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ مقصد پورا کرے گی کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو، لیکن اسرائیلی کابینہ کی ہدایات کے مطابق یہ امداد حماس تک نہ پہنچے۔
مذکورہ ویب سائٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ “ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نظام امداد کو ان لوگوں تک پہنچائے گا جو واقعی مستحق ہیں، اور یہ ہمارے اصولوں کے مطابق ہو گا۔ ہم امدادی سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں، بشرطیکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ ایسی امداد کو حماس یا فلسطینی جہاد جیسے گروہ نہ ہتھیائیں یا غلط استعمال نہ کر سکیں”۔
ایکسیوس ویب سائٹ نے مزید بتایا کہ اس نئے معاہدے کے تحت غزہ میں امدادی سرگرمیاں ایک بین الاقوامی ادارے کے ذریعے چلائی جائیں گی، جسے مختلف ممالک اور فلاحی تنظیموں کی پشت پناہی حاصل ہو گی۔ یہ ادارہ انسان دوست کارکنان کی قیادت میں کام کرے گا اور اس کے ساتھ ایک مشاورتی کونسل بھی ہو گی، جس میں ممتاز عالمی شخصیات شامل ہوں گی۔
اسرائیلی حکام نے ایکسیوس کو بتایا کہ منصوبے کے مطابق غزہ کے ایک حصے میں کئی مراکز قائم کیے جائیں گے، جہاں فلسطینی شہری ہفتے میں ایک بار جا کر ایک ہفتے کے لیے فی خاندان ایک امدادی پیکیج حاصل کر سکیں گے۔
ایک با خبر ذریعے نے ویب سائٹ کو بتایا کہ اسرائیل نے ان محفوظ امدادی مراکز کی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر انجینئرنگ کے کام کی مالی اعانت اور عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ مزید یہ کہ امداد کی خریداری اور ادارے کی سرگرمیوں کے لیے فنڈنگ دینے والے ممالک سے بھی تفصیلی مذاکرات جاری ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک نجی امریکی کمپنی ان امدادی مراکز میں لاجسٹک فراہمی اور سکیورٹی کی ذمہ دار ہو گی۔
اسرائیلی حکام نے تصدیق کی کہ اسرائیلی فوج براہ راست امداد کی ترسیل میں شامل نہیں ہو گی، نہ وہ ان مراکز میں موجود ہو گی، البتہ وہ وسیع تر علاقے میں سکیورٹی فراہم کرے گی۔