Saturday, April 26, 2025, 5:23 PM
**جیوری نے ٹرمپ کو تمام 34 جرائم میں قصور وار قرار دے دیا **سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ’ہش منی‘ کیس میں جیوری نے انہیں قصوروار قرار دیا ہے **فیصلے کے بعد صدر ٹرمپ نے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دیا **جج متعصبانہ رویہ رکھتے تھے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **فرد جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 34 الزامات کا سامنا تھا
بریکنگ نیوز
Home » امریکہ میں غیر قانونی داخل ہونے والوں کی شرح میں 95 فی صد کمی آئی : وینس

امریکہ میں غیر قانونی داخل ہونے والوں کی شرح میں 95 فی صد کمی آئی : وینس

اگلا مرحلہ ڈی پورٹیشن ہے؛ غیر قانونی تارکین خود ہی امریکہ چھوڑ دیں

by NWMNewsDesk
0 comment

نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے دعوی کیا ہے کہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخلے کی شرح میں 95 فی صد کمی آ گئی ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ پہلے یومیہ 1500 افراد غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخلے کی کوشش کرتے تھے۔ اب یہ تعداد 30 رہ گئی ہے۔

ایک انٹرویو میں جے ڈی وینس کا کہنا تھا کہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخلے کا راستہ روکنے کے بعد اگلا مرحلہ ڈی پورٹیشن ہے اور ہر آنے والے دن میں غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم افراد کو واپس بھیجنے کے اقدامات میں اضافہ ہو گا۔

نائب صدر کے بقول غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو چاہیے کہ وہ خود ہی امریکہ چھوڑ دیں۔ ہمیں آنے کی ضرورت نہیں کہ ہم آئیں اور کہیں کہ اپنے ملک واپس جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم ایسا بھی کریں گے۔

banner

کولمبیا یونیورسٹی کے طالبِ علم اور فلسطینی کارکن محمود خلیل کی گرفتاری سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں نائب صدر کا کہنا تھا کہ گرین کارڈ رکھنے والے افراد کو غیر معینہ مدت تک کے لیے امریکہ میں رہنے کا حق نہیں ہے۔

چند روز قبل امریکہ کے وفاقی امیگریشن حکام نے کولمبیا یونیورسٹی میں اسرائیل مخالف مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کرنے والے فلسطینی طالب علم کو گرفتار کرلیا تھا۔ خلیل گرین کارڈ ہولڈر تھے۔

نائب صدر کا کہنا تھا کہ گرین کارڈ ہولڈرز یا اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ آنے والوں کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں، جو ایک امریکی شہری کو حاصل ہیں۔

جے ڈی وینس کے بقول یہ اظہارِ رائے کی آزادی کا نہیں بلکہ امریکی قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر صدر ٹرمپ یا وزیرِ خارجہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو امریکہ میں نہیں ہونا چاہیے تو اُن کے پاس یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔

مزید پڑھیے

مضامین

بلاگز

 جملہ حقوق محفوظ ہیں   News World Media. © 2024