وائٹ ہاؤس میں منگل کو واشنگٹن ڈی سی کے دورے پر آنے والے اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ کاانتظام سنبھال لے گا اور ہم اس پر کام بھی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ غزہ کی ترقی چاہتے ہیں۔
ان کے بقول غزہ کے امریکی ملکیت میں آنے کے خیال کے بارے میں جس کسی سےبھی بات کی تو اس نے اس خیال کو پسند کیا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمہ نے کہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے فلسطینیوں کو مستقل طور پر غزہ سے باہر آباد کیا جانا چاہیے اور ساتھ ہی امریکہ کی ’0‘ میں جنگ زدہ علاقے کو تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران کہا میرا نہیں خیال کہ لوگوں کو واپس جانا چاہیے۔ میرے خیال میں ہمیں کسی اور مقام کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں کوئی ایسا مقام ہو جہاں لوگ خوش رہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ، غزہ کی پٹی کی ملکیت حاصل کر لے گا اور فلسطینیوں کے کسی اور مقام پر آباد ہونے کے بعد غزہ کو دوبارہ تعمیر کریں گے اور اس علاقے کو ’مشرق وسطیٰ کے رویرا‘ میں تبدیل کر دیں گے جہاں فلسطینیوں سمیت ’دنیا کے لوگ‘ رہیں گے۔
تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے اس منصوبے سے متعلق تفصیل نہیں بتائی کہ امریکہ کن اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے زمین کی ملکیت حاصل کرے گا اور جنگ زدہ علاقے کو دوبارہ تعمیر کرے گا۔
صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران مزید کہا کہ فلسطینیوں کے پاس ’ملبے کے ڈھیر‘ غزہ کو چھوڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ غزہ کی تعمیر نو کے دوران امریکی فوج کو تعینات کرنے کے امکان کو رد نہیں کر سکتے اور وہ اس علاقے کو ’طویل مدتی‘ امریکی ملکیت میں دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے سکیورٹی خلا کو پر کرنے کے لیے امریکی فوج کی تعیناتی کے حوالے سے کہا کہ ’ہم وہی کریں گے جو ضروری ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ بہت ہی خوب صورت علاقہ ہے جسے تعمیر کرنا اور وہاں ہزاروں ملازمتیں پیدا کرنا بہت ہی شان دار ہو گا۔
منگل کو پریس کانفرنس کے دوران جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ آیا سعودی عرب فلسطینی ریاست کا مطالبہ کر رہا ہے؟ تو اس پر انہوں نے کہا کہ وہ یہ مطالبہ نہیں کر رہے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی کہا کہ ان کے جنگ کے مقاصد میں سے ایک یہ تھا کہ حماس دوبارہ کبھی اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے۔
ٹرمپ کی تجاویز جنگ بندی کی توسیع اور باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ہونے والے مذاکرات کو متاثر کر سکتی ہیں جو رواں ہفتے متوقع ہیں۔