اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک بیان میں باور کرایا ہے کہ اسرائیل، امریکہ کی بات سن رہا ہے مگر وہ قومی مفاد کی بنیاد پر اپنے فیصلے خود کرے گا۔
اس مختصر بیان کے سامنے آنے سے قبل امریکی اور اسرائیلی ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ نیتن یاہو نے امریکی صدر جو بائیڈن کو آگاہ کر دیا ہے کہ ان کے ملک کی جانب سے ایران کے یکم اکتوبر کے حملے کا رد عمل ایران کے اندر فوجی اہداف تک محدود رہے گا جن میں جوہری یا تیل کی تنصیبات شامل نہیں ہوں گی۔
ادھر نیتن یاہو کے ایک قریبی اسرائیلی ذمے دار نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کے آئندہ حملے کے حوالے سے امریکی ذمے داران کے ساتھ مشاورت جاری رکھیں گے مگر وہ واشنگٹن کی جانب سے گرین سگنل کا انتظار ہر گز نہیں کریں گے۔
اس معاملے سے با خبر ذرائع کے نزدیک اسرائیل کا انتقامی رد عمل سوچ سمجھ کر ہو گا تا کہ امریکی صدارتی انتخابات پر سیاسی اثرات سے گریز کیا جا سکے۔ مزید یہ کہ تہران کے خلاف اسرائیل کی جوابی کارروائی پانچ نومبر کو امریکی انتخابات سے قبل عمل میں آئے گی۔
مذکورہ اسرائیلی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ تل ابیب کے موقف میں یہ لچک واشنگٹن کے اس فیصلے کے لیے حوصلہ افزا عامل بنی جس کے تحت طاقت ور دفاعی میزائل نظام (Thad) کو اسرائیل بھیجا جائے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے رابطہ کیا جو تقریبا دو ماہ میں ان کے بیچ پہلی گفتگو تھی۔ بائیڈن نے نیتن یاہو کو آگاہ کیا کہ اسرائیلی انتقامی کارروائی “متناسب” ہونا چاہیے جو کسی وسیع تر علاقائی جنگ کو نہ بھڑکا دے۔
امریکی ذمے داران نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے ایران کے اندر اپنے ممکنہ اہداف کا تعین کر لیا ہے۔ غالب گمان کے مطابق ان میں فوجی اور توانائی کے مقامات شامل ہیں۔
دوسری جانب تہران یہ دھمکی دے چکا ہے کہ آئندہ کسی بھی اسرائیلی حملے کا رد عمل یکم اکتوبر کے میزائل حملے سے زیادہ بھرپور ہو گا۔