امریکہ کے ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیدائشی حقِ شہریت کی ازسر نو تعریف کرنے والے ایگزیکٹو آرڈر کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے عارضی طور پر روک دیا ہے۔
محکمہ انصاف نے کہا کہ وہ صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کا ” بھرپور طریقے سے دفاع” کرے گا جو بقول اسکے”امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کی صحیح تشریح کرتا ہے۔”
شہریت کے پیدائشی حق کو منسوخ کرنے سے متعلق امریکی ڈسٹرکٹ جج جان کوگنور نے 25 منٹ تک کیس کی سماعت کی۔
طویل بحث کے بعد وفاقی جج نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حکمنامے کو معطل کردیا۔
جج کا کہنا تھا کہ امریکی آئین میں 14ویں ترمیم کے تحت امریکہ میں پیدا ہونے والا ہر بچہ امریکی کہلاتا ہے اور بچے کو امریکہ کی شہریت مل جاتی ہے۔
سماعت کرنے والے 84 سالہ جج کوفینور نے کہا،”یہ ایک صریحاً غیر آئینی حکم ہے۔”
سماعت کے دوران جج نے کہا کہ صدارتی حکم آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
عدالتی فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کو 14 دنوں کے لیے ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کرنے سے روکتا ہے۔ اس دوران فریقین ٹرمپ کے حکم کے میرٹ(اس کے درست یا نہ درست ہونے) کے بارے میں مزید دلائل پیش کریں گے۔
جج کوفینور نےیہ فیصلہ کرنے کے لیے 6 فروری کو ایک سماعت طے کی ہےکہ ایک ایسے وقت میں جب کارروائی جاری ہےآیا اس کیس کو طویل مدت تک روکا جانا چاہئے۔
محکمہ انصاف کے وکیل بریٹ شومیٹ نے کہا کہ وہ احترام کے ساتھ اس بات سے متفق نہیں کہ یہ غیر آئینی حکم ہے۔
واضح رہے کہ امریکی ریاستوں ایریزونا، الینوائے، اوریگون اور واشنگٹن نے صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر روکنے کے لیے حکم امتناعی کی عدالت میں استدعا کی تھی۔
اس سلسلے میں قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کا استدلال ہے کہ امریکی آئین کی 14ویں ترمیم امریکہ میں پیدا ہونے والے لوگوں کے لیے شہریت کی ضمانت دیتی ہے اور ریاستیں ایک صدی سے اس ترمیم کی یہی تشریح کر رہی ہیں۔