پاکستان اور ایران کی سرحد پر 14 اور 15 اکتوبر کے دوران 250 سے زائد افغان شہری مارے گئے۔
ایران میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم هلوش نے دعویٰ کیا ہے کہ اس فائرنگ کے نتیجے میں 260 افغان شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
مبینہ طور پر ایرانی فورسز کی فائرنگ سے اموات کی رپورٹس پر افغانستان کی عبوری حکومت نے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔
ھلوش کے مطابق فائرنگ سے بچ جانے والوں نے خوفناک مناظر بیان کیے۔ دو زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ تقریباً 300 تارکین وطن کا ایک گروپ تھا جو سرحد پار کرنے کی کوشش کر رہے تھے جب انہیں گولی مار دی گئی، انہیں آر پی جی سے نشانہ بنایا گیا۔
افغانستان کی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی ہے کہ حکومت اس افسوسناک واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے، مزید تفصیلات کا انتظار ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ مختلف حکومتی اداروں اور امارت اسلامیہ افغانستان کے سفارتی مشنز نے اس معاملے کی جامع تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ چونکہ یہ واقعہ افغانستان کی سرحدوں سے باہر ہونے کی اطلاع ہے، اس لیے دستیاب معلومات غیر تصدیق شدہ ہیں۔ حقائق کی مکمل وضاحت کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
ایران کے خصوصی ایلچی اور کابل میں سفیر حسن کاظمی قمی نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ “بے بنیاد” ہے۔
انہوں نے کہا کہ معتبر ذرائع سے براہ راست فالو اپ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ سراوان کی سرحد پر درجنوں غیر قانونی شہریوں کی ہلاکت کی خبریں درست نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کے داخلے کو روکنا ایران کی سرحدی فورسز کی ذمہ داری ہے۔ ایران افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے پرعزم ہے اور اس معاملے میں وہ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق کام کرتا ہے۔