امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ایلون مسک کی وفاقی ملازمین کی تعداد میں کمی لانے کی پالیسی کے خلاف ٹیسلا کے شو روم کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہوا۔
احتجاج میں شامل مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر ایلون مسک کی تصویر کے ساتھ نعرے درج تھے۔
امریکہ کے دیگر شہروں میں بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے ہوئے
خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو ادارہ برائے حکومتی کارکردگی (ڈوج) کا سربراہ مقرر کیا تھا جس کے تحت 20 لالھ ملازمین پر مشتمل وفاقی ورک فورس میں سے ایک لاکھ سے زائد افراد اپنی نوکریوں سے برطرف کیے جا چکے ہیں۔
ایلون مسک کی پالیسیوں کے خلاف امریکہ میں ردعمل کے طور پر ٹیسلا کے شورومز، گاڑیوں، چارجنگ اسٹیشنز اور نجی ملکیت والی ٹیسلا کی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
رواں ہفتے امریکہ کے شہر سیئٹل میں ٹیسلا کے سائبر ٹرک کو آگ لگانے کا واقعہ پیش آیا جبکہ گولیوں اور دیسی ساختہ فائر بم مولوٹوف کاک ٹیل سے شو رومز کو نشانہ بنایا گیا۔
منگل کو لاس ویگس میں ٹیسلا کے سروس سینٹر کے باہر ٹیسلا کی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا جبکہ عمارت کے دروازے پر ’مزاحمت‘ لفظ سرخ پینٹ سے لکھا ہوا تھا۔
ان واقعات میں کسی شخص کے زخمی ہونے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
ایلون مسک کے ناقدین امریکہ اور یورپ میں موجود ٹیسلا کے شورومز اور فیکٹریوں کے سامنے متعدد پرامن مظاہرے منعقد کر چکے ہیں۔
حملوں کے بڑے واقعات بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے امریکی شہر پورٹ لینڈ، اوریگن اور سیئٹل میں پیش آئے ہیں جہاں ٹرمپ اور مسک مخالف جذبات میں شدت پائی جاتی ہے۔
ایلون مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر گاڑیوں کی جلی ہوئی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’اس حد کا تشدد پاگل پن ہے اور سراسر غلط ہے۔ ٹیسلا محض الیکٹرک گاڑیاں بناتی ہے اور ایسا کچھ نہیں کیا کہ اس قسم کے برے حملوں کیے جائیں۔‘