صدر جو بائیڈن نے کانگریس کی منظوری کے بغیر کم از کم 100 بار اسرائیل کو ہتھیار بھیجنے کے لیے قانون میں موجود سقم کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کانگریس کو اسرائیل کو بھجوائے گئے ہتھیاروں کی صرف دو کھیپوں کے بارے میں پیشگی اطلاع دی گئی تھی جب کہ سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کو ایسی 100 سے زیادہ کھیپیں بھجوائی گئیں جن میں مہلک ترین بم بھی شامل تھے۔
حتیٰ کہ قریبی اتحادیوں کو بھی ایسے ہتھیاروں کی فراہمی سے پہلے عام طور پر کانگریس میں قانون سازوں کو اسے نظرثانی کے لیے پیش کیا جاتا ہے اور پھر عوامی سطح پر اس کا اعلان ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں انتظامیہ نے ایک ہنگامی قانون کا استعمال کیا جس میں نظرثانی کے عمل کو بائی پاس کر دیا گیا۔
آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے تحت اتحادی ممالک کے لیے امریکی ہتھیاروں کی فروخت پر ڈھائی کروڑ ڈالر کی حد ہے اور اس کے لیے بھی وسیع تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف قسم کے بموں کے لیے یہ حد 10 کروڑ ڈالر تک بڑھ جاتی ہے۔
امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ وائٹ ہاؤس نے کانگرس کی منظوری کے بغیر مخصوص حدود کے اندر رہتے ہوئے اسرائیل کو سامان حرب کی ترسیل جاری رکھی۔ وائٹ ہاؤس نے ان ہتھیاروں کی تفصیلات شیئر نہیں کیں اور اس طریقے، یعنی ہتھیاروں کی حد کو عبور کیے بغیر، اس سقم کے ذریعے اسرائیل کو ’ہزاروں ہتھیار‘ بھجوائے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے کچھ ہتھیار امریکہ کے اپنے ہتھیاروں سے لیے گئے تھے جب کہ کچھ پہلے سے منظور شدہ شپمنٹ کے عمل کو تیز کرتے ہوئے اسرائیل کو فراہم کیے گئے تھے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ان الزامات کے بارے میں کہا: ’ہم نے ایوان کے اراکین کو مطلع کرنے کے لیے کانگریس کے طریقہ کار کی پیروی کی اور کانگریس کے اراکین کے ساتھ باقاعدگی سے معلومات کا اشتراک کیا یہاں تک کہ جب قانونی طور پر رسمی اطلاع کی ضرورت نہیں تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ الزامات کہ ہم نے ہتھیاروں کی کھیپ کو طے شدہ قانونی حدود سے نیچے رکھتے ہوئے منتقل کیا ہے یا کانگریس کے ممبران کو اس میں شامل نہیں کیا ہے، بالکل غلط ہیں۔‘