برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی حکومت فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے حوالے سے فرانس اور سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔
لیمے نے ہاؤس آف لارڈز کی انٹرنیشنل ریلیشنز سیلیکٹ کمیٹی کو بتایا کہ یورپی یونین کے ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے سے ریاستی حیثیت کے حصول میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی، اور برطانیہ محض علامتی اقدام کے بجائے کوئی مؤثر قدم اٹھانا چاہتا ہے۔
انہوں نے کمیٹی سے کہا کہ ’یہ ناقابلِ قبول ہے کہ کوئی بھی قوم اتنی طویل مدت تک بغیر ریاست کے زندہ رہی ہو جتنی عمر میری ہے۔‘
’کسی کے پاس ویٹو نہیں ہے کہ کب برطانیہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے. ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ تسلیم کرنا بذاتِ خود کوئی ہدف نہیں، بلکہ ہم اسے دو ریاستی حل کے عمل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’صدر ایمانوئل میکرون کے پاس اس معاملے پر کہنے کو بہت کچھ ہے، حالیہ دنوں میں سعودیوں کے ساتھ مل کر بھی، اور ظاہر ہے کہ اس وقت ہم ان سے بات چیت کر رہے ہیں۔‘
برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست میں یہ شامل نہیں ہو سکتا کہ حماس غزہ پر حکمرانی کرتی رہے، اور اس علاقے کا مکمل غیر عسکری بنانا ضروری ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع دو ریاستی حل کے لیے خطرہ ہے، اور فلسطینیوں کے خلاف آبادکاروں کا تشدد “حیران کن” ہے۔
انہوں نے اسرائیل کو غزہ میں امداد کی ترسیل سے مسلسل روکنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’غزہ میں ضروری امداد کی ناکہ بندی خوفناک ہے، تکلیف شدید ہے، ضرورت بہت زیادہ ہے، اور جانی نقصان بے حد ہے۔‘
اب تک 160 ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں، جن میں حال ہی میں اسپین، ناروے اور آئرلینڈ شامل ہیں۔