5
باغیوں نے دارالحکومت دمشق پہنچ کر اسد خاندان کی نصف صدی پر پھیلی ہوئی حکمرانی کا خاتمہ کر دیا اور سیاسی قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے جیلوں کے دروازے توڑ دیئے۔
ہزاروں قیدی آزاد ہوئے ہیں جن میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو 2011 میں شام کا تنازع شروع ہونے کے وقت سے لاپتہ تھے۔
رہائی پانے والے قیدی دمشق کی سڑکوں پر جشن منا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں رہائی پانے کے بعد بڑی تعداد میں قیدی خوشی سے ناچتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 2011 سے 2016 کے درمیان اس قید خانے میں 13 ہزار کے لگ بھگ شامیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔
برطانیہ میں قائم حکومت مخالف گروپ سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ایک عہدے دار رامی عبدالرحمٰن نے بتایا ہے کہ اب تک دسیوں ہزاروں قیدیوں کو رہا کرایا جا چکا ہے۔
گزشتہ 10 دنوں کے دوران باغیوں نے حلب، حمص، حما اور دمشق سمیت کئی شہروں میں قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
شامی شہری دفاع کی جانب سے خفیہ جیلوں سے متعلق ٹھوس معلومات فراہم کرنے والوں کے لیے 5 ہزار ڈالر انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دمشق میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے بدنام زمانہ صیدنایا جیل میں ریسکیو ٹیمیں اور لاپتا افراد کے عزیز اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے ہیں۔
شہری دفاع کے ادارے وائٹ ہیلمٹس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ زیر زمین جیل، جہاں قیدیوں کو رکھنے کی اطلاعات ہیں، کی تلاش جاری ہے اور سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں کو جیل میں تعینات کردیا گیا ہے۔
حکام کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھی اپیل کی گئی ہے کہ بشار حکومت میں جیل کے اندر کام کرنے والے اہلکار اور ملازم باغی فوج کے رہنماؤں کو جیلوں میں قائم انڈرگراؤنڈ سیلز کے الیکٹرانک کوڈز فراہم کریں تاکہ وہاں قید افراد کو آزاد کرایا جاسکے۔
ان قیدیوں کو جیل کے مرکزی کنٹرول روم سے سی سی ٹی وی کے ذریعے دیکھا جاسکتا ہے۔
بشار الاسد کے فرار اور باغیوں کی آمد کے بعد ہزاروں شامی جیلوں اور سیکیورٹی مراکز کے باہر اس امید پر جمع ہیں کہ برسوں سے لاپتہ ان کے پیارے بھی ممکنہ طور پر آزاد ہونے والوں میں شامل ہوں گے اور ان سے آن ملیں گے۔