صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں امن مارچ کے دوران فائرنگ کے واقعے کے خلاف جاری دھرنا اتوار کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری ہے۔
بنوں میں جاری دھرنا امن پاسون کی طرف سے دیا گیا ہے۔
اتوار کو خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ مقامی عمائدین اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’عمائدین کی وزیراعلٰی کے ساتھ جلد ملاقات کرائی جائے گی۔‘
خیال رہے مقامی لوگوں اور چند سیاستدانوں نے الزام لگایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے بنوں میں نہتے مظاہرین پر گولی چلائی۔ تاہم بیرسٹر سیف نے فائرنگ کرنے والوں کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔
مظاہرین نے صوبائی حکومت سے بات چیت کے لیے 30 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
دریں اثنا تحریک تحفظ آئین نے بنوں واقعے کی جوڈیشنل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعے کو ہونے والے امن مارچ کے دوران فائرنگ کے بعد بھگدڑ مچنے سے کم از کم دو افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ جمعے کو ہونے والا امن مارچ شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے تھے۔
مظاہرہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب صوبہ خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کی جانب سے سکیورٹی فورسز، پولیو ورکرز اور حکومتی اہلکاروں پر ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بنوں میں حالیہ دنوں میں دہشت گردوں کے حملوں میں تشویشناک اضافے کے بعد علاقے کے لوگوں نے سفید جھنڈوں کے ساتھ امن کی بحالی کے لیے مظاہرہ کیا۔ امن مارچ سے چند دن قبل بنوں چھاؤنی میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں 10 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔