بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ملک کے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت قومی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر معزول سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے سیاسی جماعت عوامی لیگ کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔
یہ فیصلہ طلبہ کی قیادت میں نیشنل سٹیسزن پارٹی کے تحت سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے بعد کیا گیا، یہ جماعت گزشتہ سال حسینہ واجد کیخلاف برپا ہونے والے مظاہروں کے بعد وجود میں آئی تھی۔
جماعت اسلامی سمیت اسلامی اور دائیں بازو کی بہت سی اپوزیشن جماعتیں عوام لیگ کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہروں میں شریک ہوئیں۔
حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عوامی لیگ پر پابندی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں مظاہرین کی ہلاکتوں کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔
حکومت نے آئی سی ٹی ایکٹ میں ترمیم کا اعلان بھی کیا ہے، جس کی رو سے عدالت نہ صرف افراد بلکہ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے خلاف بھی مقدمہ چلانے کی اجازت دے گی، اس ترمیم نے عوامی لیگ کے خلاف بطور جماعت مقدمہ چلانے کی راہ ہموار کردی ہے، جو اس کے حکومتی دور میں کیے گئے مبینہ جرائم کے حوالے سے ہے۔
1949 میں قائم ہونے والی نے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر لکھا کہ غیر قانونی حکومت کے تمام فیصلے غیر قانونی ہیں۔
ملک نے حالیہ مہینوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور احتجاجی مظاہروں کا سامنا کیا، جب مظاہروں کے نتیجے میں حسینہ واجد کو اگست میں بھارت سے فرار ہونا پڑا اور نوبل امن انعام حاصل کرنے والے محمد یونس کی قیادت میں ایک عارضی حکومت نے اقتدار سنبھالا۔
محمد یونس نے اصلاحات کا عہد کیا اور کہا کہ انتخابات 2026 تک مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔
بغاوت جولائی 2024 میں عوامی سرکاری ملازمتوں کے کوٹوں کے خلاف طلبہ کے مظاہروں سے شروع ہوئی، لیکن یہ جلد ہی بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سے سیاسی تشدد کے سب سے مہلک دوروں میں سے ایک میں تبدیل ہو گئی۔
اکتوبر میں حکومت نے عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم بنگلہ دیش چھاترا لیگ پر پابندی عائد کر دی تھی اور اسے مظاہرین پر تشدد کے حملوں میں کردار کی وجہ سے ”دہشت گرد تنظیم“ قرار دیا۔