ترکیہ میں صدر رجب طیب اردوان کے اہم حریف کی گرفتاری کے بعد سے پولیس نے صحافیوں سمیت 1100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
ایم ایل ایس اے حقوق گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس نے ’مظاہروں کی کوریج کرنے پر‘ اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر سمیت 10 ترک صحافیوں کو گھروں سے حراست میں لے لیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان میں سے بیشتر سٹی ہال کے باہر بڑے پیمانے پر مظاہروں کی کوریج کر رہے تھے، جہاں دسیوں ہزار افراد جمع ہوئے تھے۔
وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے کہا کہ بدھ کے روز مظاہروں کے آغاز کے بعد سے پولیس نے ’غیر قانونی سرگرمیوں‘ پر 1133 سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے۔
پیر کو استنبول کے گورنر داؤد گل نے مظاہرین پر ’ مساجد اور قبرستانوں کو نقصان پہنچانے’ کا الزام لگایا، اور ’ ایکس ’ پر خبردار کرتے ہوئے لکھا ’عوامی نظم و نسق کو خراب کرنے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ’
امام اوغلو نے جیل سے اپنے وکلاء کے ذریعے بھیجے گئے پیغام میں کہا، ’ میں ایک سفید قمیض پہنتا ہوں جسے آپ داغدار نہیں کر سکتے۔ میرے پاس ایک مضبوط بازو ہے جسے آپ موڑ نہیں سکتے۔ میں ایک انچ بھی نہیں ہلوں گا۔ میں یہ جنگ جیتوں گا۔’
گزشتہ ہفتے صدر اردوان کے اہم حریف اور استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد استنبول میں مظاہرے شروع ہوئے اور بتدریج ترکی کے 55 سے زائد صوبوں تک پھیل گئے۔
53 سالہ مقبول سیاست دان اکرام امام اوغلو کو بدعنوانی اور دہشت گردی کے الزام میں جیل بھیج کر میئر شپ سے محروم کر دیا گیا ہے۔
ترکیہ کی مرکزی اپوزیشن جماعت سی ایچ پی نے اکرام امام اوغلو کو 2028 کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کردیا ہے۔انہوں نے پارٹی انتخابات میں 15 ملین سے زائد ووٹ حاصل کیے۔