نکاراگوا اور جرمنی پیر کے روز اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ عدالت میں مدِ مقابل آئے۔
نکاراگوا جرمنی کو بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے کٹہرے میں لے آیا ہے جس کا مقصد منصفین سے یہ مطالبہ کرنا ہے کہ وہ برلن کو اسرائیل کو ہتھیار اور دیگر امداد فراہم کرنے سے روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرے۔
نکاراگوا کے وکلاء نے استدلال کیا کہ جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر کے 1948 کے اقوامِ متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے جو ہولوکاسٹ کے تناظر میں قائم کیا گیا تھا۔
نکاراگوا کے وکیل ڈینیئل مولر نے عدالت کو بتایا، “یہ واقعی فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کے لیے ایک قابلِ رحم اور افسوس ناک بہانہ ہے کہ وہ ایک طرف فضائی راستے سمیت انسانی امداد فراہم کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کو مارنے اور تباہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والا فوجی ساز و سامان…”
نیدرلینڈز میں نکاراگوا کے سفیر کارلوس جوز ارگیلو گومیز نے عدالت کو بتایا: “ایسا لگتا ہے کہ جرمنی ذاتی دفاع اور نسل کشی میں فرق کرنے کے قابل نہیں ہے۔”
ے
نکاراگوا نے عدالت سے “عارضی اقدامات” کا فیصلہ کرنے کی درخواست کی ہے۔
نکاراگوا کے وکیل ایلین پیلیٹ نے کہا، “جرمنی اس خطرے سے پوری طرح باخبر تھا اور ہے کہ اس نے جو ہتھیار اسرائیل کو فراہم کیے ہیں اور جن کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے”، انہیں نسل کشی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، “یہ انتہائی ضروری ہے کہ جرمنی آخرکار اس طرح کی امداد کو معطل کر دے”۔
جرمنی منگل کو عدالت میں مکمل جواب دے گا لیکن اس نے پہلے ہی الزامات مسترد کردیئے ہیں۔
جرمنی کی وکیل تانیہ وان اسلر-گلیچن نے کہا کہ نکاراگوا کا مقدمہ “انتہائی متعصبانہ” تھا۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا، “جرمنی ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی نسل کشی کے کنونشن یا بین الاقوامی انسانی قانون کی براہِ راست یا بالواسطہ خلاف ورزی نہیں کی۔”
“اس کے برعکس جرمنی بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے اور ہم بین الاقوامی سطح پر اسی کے لیے کام کرتے ہیں۔”