اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی سربراہی میں سابق حکومت نے اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے مخالفین پر منظم حملے کیے اور مظاہرین کو قتل کیا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اگست میں طلبہ کی قیادت میں آنے والے انقلاب اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کا تختہ الٹنے سے قبل ان کی حکومت نے مظاہرین اور دیگر کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا، اس دوران ’سیکڑوں ماورائے عدالت قتل‘ کیے گئے۔
اقوام متحدہ کی تحقیقات میں گزشتہ سال یکم جولائی سے 15 اگست کے درمیان بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا گیا جس میں متاثرین، عینی شاہدین اور دیگر افراد کے سیکڑوں انٹرویوز، تصاویر، ویڈیوز اور دیگر دستاویزات پر انحصار کیا گیا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اس بات کا تعین کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے بدامنی کے دوران حسینہ واجد کی حکومت کی حمایت کی تھی۔
او ایچ سی ایچ آر کا اندازہ ہے کہ 45 دن میں ایک ہزار 400 افراد ہلاک ہوئے ہوں گے، جن میں سے زیادہ تر کو بنگلہ دیش کی سیکیورٹی فورسز نے گولیاں ماری تھیں۔
رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں 12 سے 13 فیصد بچے تھے، مجموعی ہلاکتوں کی تعداد بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے تازہ ترین اندازے سے کہیں زیادہ ہے جس میں 834 افراد ہلاک بتائے گئے ہیں۔
تحقیقات کے دوران انسانی حقوق کے دفتر کو بڑے پیمانے پر صنفی بنیاد پر تشدد اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور قتل کے اشارے بھی ملے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے دفتر کو اس بات پر یقین کرنے کی معقول وجوہات ملی ہیں کہ درحقیقت سابق حکومت کے اعلیٰ حکام اس معاملے سے آگاہ تھے۔
وولکر ترک نے کہا کہ یہ وحشیانہ ردعمل سابق حکومت کی جانب سے عوامی مخالفت کے سامنے اقتدار پر قبضہ رکھنے کے لیے ایک سوچی سمجھی اور مربوط حکمت عملی تھی۔
انہوں نے سیکڑوں ماورائے عدالت قتل، بڑے پیمانے پر من مانی گرفتاریوں اور حراست اور تشدد اور بدسلوکی کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ریاستی تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کی پریشان کن تصویر کی مذمت کی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا کہ ان کے پاس اس بات پر یقین کرنے کی معقول بنیاد ہے کہ قتل، تشدد، قید اور دیگر غیر انسانی کارروائیوں کے نتیجے میں انسانیت کے خلاف جرائم ہوئے ہیں۔