امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کا یہ بیان کہ اس نے ایک امریکی اسرائیلی فوجی کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے حقیقت میں اس ہفتے کے شروع میں امریکی حکام کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی کو جاری رکھنے کی تجویز کی ایک شرط تھی۔
امریکی ایلچی وٹکوف نے کہا ا نہوں نے اور قومی سلامتی کونسل کے مشرق وسطیٰ کے سینئرڈائریکٹر ایرک ٹریگر نے موجودہ جنگ بندی کو رمضان اور یہودی تہوار پاس اوور سے آگے بڑھانے اور مستقل جنگ بندی کے لیے فریم ورک پر بات چیت کے لیے وقت دینے کی تجویز پیش کی تھی۔
وٹکوف نے بیان میں کہا کہ اس تجویز کے مطابق حماس فلسطینی قیدیوں کے بدلے مزید یرغمالوں کو رہا کرے گی، اور یہ کہ پہلے مرحلے کی جنگ بندی میں توسیع سے غزہ میں انسانی امداد کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے مزید وقت ملے گا۔
ایلچی نے کہا کہ امریکہ نے اپنے قطری اور مصری ثالثی شراکت داروں کو کہا تھا کہ حماس کو دو ٹوک الفاظ میں یہ پیغام دیا جائے کہ نئی تجویز پر جلد عمل درآمد کرنا ہوگا اور اسے ایڈن الیگزینڈر کو رہائی فوری طور پر کرنا ہوگی۔
بیان میں وٹکاف نے کہا بدقسمتی سے حماس نے عوامی طور جواب دینے کا فیصلہ کیا اور لچک دکھانے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ (حماس) نجی طور پر ایسے مطالبات کر رہی ہے جو کسی مستقل جنگ بندی کے بغیر بالکل ناقابل عمل ہیں۔”
واضح رہے کہ حماس نے گزشتہ روز غزہ میں قید آخری زندہ امریکی یرغمال ایڈن الیگزینڈر کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
حماس نے یہ بھی کہا تھا کہ بین الاقوامی ثالثوں کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی تجویز موصول ہونے کے بعد اس نے چار دیگر یرغمالوں کی لاشیں بھی حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔