اقوامِ متحدہ کی میزبانی افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان سے رابطوں کے لیے شروع کیے گئے مذاکراتی عمل کی تیسری کانفرنس اختتام پزیر ہو گئی ہے۔
اس تیسرے دور میں طالبان پہلی بار شریک ہوئے تھے جنہوں نے مذاکرات میں نہ تو افغانستان میں کسی قسم کی اصلاحات کی یقین دہانی کرائی اور نہ ہی وہ بین الاقوامی برادری سے کسی قسم کی مراعات کے حصول میں کامیاب ہو سکے۔
کانفرنس میں لگ بھگ دو درجن ممالک کے افغانستان کے لیے خصوصی مندوبین اور چند بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ان میں سے چند ایک ہی نے طالبان کے وفد سے ملاقات کی۔
اقوامِ متحدہ کی انڈر سیکریٹری روزمیری ڈی کارلوس نے مذاکرات کی سربراہ کی، جن کا دعویٰ ہے کہ طالبان سے مذاکرات تعمیری اور فائدہ مند رہے۔
مذاکرات کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس میں ڈی کارلوس نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے ایک بڑے حصے اور افغانستان میں برسرِ اقتدار حکمرانوں کو تفصیل سے مباحثے کا پہلی بار موقع ملا ہے۔
ان کے بقول مذاکرات انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئے۔ تاہم انہوں نے طالبان حکومت کو اس وقت تک تسلیم کرنے کے امکان کو مسترد کر دیا جب تک طالبان خواتین کی تعلیم سمیت ان پر عائد دیگر پابندیاں ختم نہیں کر دیتے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک برس قبل ’دوحہ مذاکرات‘ کا آغاز کیا تھا۔
مذاکرات کے حالیہ دور کے شرکا نے روابط سازی کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔