انقرہ میں ترکیہ کے انٹیلیجنس ادارے کی زیر نگرانی روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ قیدیوں کا بڑا تبادلہ کیا گیا۔
امریکی و روسی قیدیوں کا تبادلہ انقرہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے میں ترکیہ انٹیلیجنس عہدے داروں کی موجودگی میں کیا گیا، قیدیوں کے تبادلے میں سیاسی قیدی اور صحافی ایوان گرشوگیف بھی شامل ہیں۔
روس نے امریکہ میں قید 10 روسی شہریوں کے بدلے میں 3 امریکیوں سمیت دیگر ممالک کے 16 قیدیوں کو ترک عہدے داروں کے حوالے کیا۔
امریکہ کی جانب سے جو روسی قیدی واپس کیے گئے ہیں انہیں جرمنی، سلووینیا اور پولینڈ کی جیلوں میں رکھا گیا تھا۔
دوسری عالمگیر جنگ کے بعد روس اور امریکا کے درمیان قیدیوں کا یہ سب سے بڑا تبادلہ سمجھا جا رہا ہے۔
امریکی صدر بائیڈن نے قیدیوں کے تبادلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں نے قیدیوں کے تبادلے کیلئے جرات مندانہ اقدامات کیے۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے تبادلے پر روسی صدر پیوٹن سے بات کرنا ضروری نہیں ہے۔
دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن امریکی و مغربی ممالک کے جیلوں سے رہائی پاکر آزاد ہونے والے روسی قیدیوں کے استقبال کیلئے ائیرپورٹ پہنچے اور روس واپس پہنچے والوں سے مصافحہ کیا۔
دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ 24 قیدیوں کا تبادلہ کیا جس میں امریکا اور اسکے 6 اتحادی ملکوں کے جیلوں میں قید 10 روسی قیدیوں سمیت روس کی جیلوں میں قید 16 قیدیوں کو رہا کیا گیا۔