ترکیہ، ایران اور روس کے وزرائے خارجہ ہفتے کے روز دوحہ میں ملاقات کریں گے جس میں شام میں باغیوں کی پیش قدمی پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
شامی حزبِ اختلاف کی افواج نے 13 سال قبل خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے میدانِ جنگ میں اپنی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے جس سے صدر بشار الاسد کو ایک تباہ کن دھچکا لگا ہے۔
کئی سالوں تک منجمد رہنے والے حزبِ اختلاف کے ہراول دستوں نے گذشتہ ہفتے مرکزی شمالی شہر حلب پر قبضہ کر لیا اور پھر جنوب کی طرف حماۃ کے مرکز تک جا پہنچے اور پہلی بار فوجی اہمیت کے حامل مرکزی شہر پر قبضہ کر لیا۔
شام کے مستقبل پر سہ فریقی طرز پر ترکیہ، روس اور ایران باقاعدگی سے گفتگو کرتے رہے ہیں جو آستانہ امن عمل کے نام سے معروف ہے۔ جہاں نیٹو کا رکن ترکیہ سیاسی اور مسلح اپوزیشن کی حمایت کرتا ہے، وہیں روس اور ایران الاسد کے حامی ہیں۔
تنازعہ کے از سرِ نو آغاز کے بعد سے انقرہ نے الاسد پر زور دیا ہے کہ وہ شامی عوام سے سیاسی حل کے لیے رجوع کریں۔ اس نے حزبِ اختلاف کی کارروائیوں میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کیا اور کہا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی طرف تارکین وطن کی نئی لہر کو نہیں دیکھنا چاہتا۔