4
شام میں سیکیورٹی فورسز اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپوں اور انتقامی قتل عام میں مرنے والوں کی تعداد 1000 سے زائد ہو گئی ہے، جن میں 750 عام شہری شامل ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی مبصر گروپ برائے انسانی حقوق نے کہا کہ 745 شہریوں میں سے زیادہ تر قتل عام کا نشانہ بنے جبکہ سیکیورٹی فورس کے 125 ارکان اور بشار الاسد کے حامی 148 عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے۔
لاذقیہ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں بجلی اور پانی کی فراہمی منقطع کر دی گئی ہے۔
یہ جھڑپیں اسد حکومت کے خاتمے کے تین ماہ بعد شروع ہوئیں اور دمشق میں نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔
حکومت نے کہا ہے کہ وہ بشار الاسد کی فوج کی باقیات کی طرف سے کیے گئے حملوں کا جواب دے رہی تھی، حکومت نے بے قابو تشدد کو ”انفرادی کارروائیوں“ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
شامی مبصر گروپ کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے کہا کہ انتقامی کارروائیاں ہفتے کی علی الصبح رک گئیں، عبدالرحمٰن نے علوی شہریوں کے قتل عام کے بارے میں کہا کہ یہ شام کے تنازع کے دوران سب سے بڑے قتل عام میں سے ایک تھا۔
مبصر گروپ نے اس سے قبل 200 سے زیادہ ہلاکتیں رپورٹ کی تھیں تاہم کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے تھے۔
شام کی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری فورسز نے زیادہ تر علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے اور امن و امان کی بحالی کے لیے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔