کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی طالب علم محسن مہدوی کو امریکی عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا ہے۔ امریکی ڈسٹرکٹ جج جیفری کرافورڈ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’محسن مہدوی عوام کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔‘
محسن مہدوی نے جیل سے نکلنے کے بعد کہا کہ ’میں صدر ٹرمپ اور ان کی کابینہ سے واضح اور بلند آواز میں کہہ رہا ہوں کہ میں آپ سے نہیں ڈرتا۔‘
محسن مہدوی کی رہائی ٹرمپ انتظامیہ کی فلسطینی حامی غیر ملکی یونیورسٹی کے طلباء کو ملک بدر کرنے کی کوششوں کے لیے ایک دھچکا ہے اگرچہ دیگر طلباء تاحال جیل میں ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے حکام نے کہا ہے کہ اسٹوڈنٹ ویزا اور گرین کارڈ ہولڈرز کو فلسطینیوں کی حمایت اور غزہ کی جنگ میں اسرائیل کے طرزِ عمل پر تنقید کے باعث ملک بدری کا سامنا کرنا ہوگا۔
محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی ترجمان ٹریسیا میک لافلن کا کہنا ہے کہ محسن مہدوی کا گرین کارڈ پر امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کا استحقاق چھین لیا جانا چاہیے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’جب آپ تشدّد کی وکالت کرتے ہیں، امریکیوں کے قتل کو پسند کرنے والے دہشت گردوں کی تعریف اور حمایت کرتے ہیں اور یہودیوں کو ہراساں کرتے ہیں، تو یہ استحقاق ختم کر دیا جانا چاہیے، اور آپ کو اس ملک میں نہیں ہونا چاہیے۔‘
ٹریسیا میک لافلن نے مزید کہا کہ ’کوئی جج ہمیں ایسا کرنے سے نہیں روکے گا۔‘
ٹرمپ کے ناقدین نے اس اقدام کو امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب ریاست ورمونٹ کے امریکی کانگریس کے سینیٹر برنی سینڈرز، سینیٹر پیٹر ویلچ اور نمائندہ بیکا بیلنٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ’محسن مہدوی یہاں امریکہ میں قانونی طور پر مقیم ہیں اور انہوں نے قانونی طور پر کام کیا ہے۔ اس معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات شرمناک اور غیر اخلاقی ہیں۔‘
امریکہ کی یونیورسٹی میں غزہ جنگ کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے فلسطینی طالب علم کو اپریل کے وسط میں امیگریشن آفس سے گرفتار کر لیا تھا۔
محسن مہدوی کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کو پیر کے روز ورمونٹ کے امیگریشن آفس سے گرفتار کیا گیا، جہاں وہ امریکی شہریت کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے انٹرویو دینے کے لیے پہنچے تھے۔
وکیل کے مطابق محسن مہدوی امریکہ کے قانونی اور مستقل رہائشی ہیں اور 2015 سے گرین کارڈ رکھتے ہیں۔