افغانستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں متحارب قبائلی فریقین کے درمیان جھڑپیں اتوار کو پانچویں روز بھی جاری ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں زمین کے تنازع پر دو قبائل کے درمیان جھڑپوں میں مزید 14 افراد جاں بحق اور 130 زخمی ہو گئے جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 24 ہو گئی ہے۔
پولیس عہدے دار کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان زمین کے تنازع پر تصادم شروع ہوا تھا جس کے بعد مختلف علاقوں میں مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔
مختلف ذرائع سے جمع کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق ان جھڑپوں میں اب تک کم از کم 24 افراد ہلاک اور 130 زخمی ہوگئے ہیں۔
کرم میں جاری جھڑپوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے بارے میں سرکاری طور پر باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے مطابق ضلع کرم کے علاقے بوشہرہ اور مالی خیل کے مابین زمین کے تنازع پر فائرنگ کا سلسلہ چار روز قبل شروع ہوا جس کے بعد پیواڑ ، تنگی، بالشخیل، خار کلے، مقبل، کنج علی زئی اور پاڑہ چمکنی کڑمان کے علاقوں میں بھی جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
حکام کے مطابق ان جھڑپوں میں بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور فائرنگ کے واقعات نے خوں ریز مذہبی فسادات کا رخ اختیار کر لیا ہے۔
ان جھڑپوں کے نتیجے میں پاراچنار سے پشاور مین روڈ بھی ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہے جب کہ پاراچنار کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال اور بازاروں میں ادویات ختم ہو گئیں ہیں۔
ایک روز قبل خیبر پختونخواہ کے ضلع کرم میں جاری جھڑپوں کے دوران ایک پولیس اسٹیشن پر بھی حملہ کیا گیا ہے جس میں اہل کاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
پولیس کے بیان میں یہ حملہ مبینہ شرپسندوں کی جانب سے کرنے کا دعوٰی کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق یہ حملہ سینٹرل کرم کے سرپاخ تھانے پر کیا گیا تھا۔ حملے میں ایک اہل کار ہلاک جب کہ 5 اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔