فرانس میں قبل از وقت کرائے جانے والے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کی بھاری اکثریت سے جیت توقع کی جا رہی تھی لیکن انتخابات میں جیت کے بجائے وہ تیسرے نمبر پر آئی ہے۔
صدر ایمانوئل میکخواں نے چار ہفتے قبل اپنی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کے مد نظر قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا جس میں پہلے مرحلے میں نیشنل ریلی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔
لیکن حتمی نتائج میں نیو پاپولر فرنٹ نامی بائیں بازو کے اتحاد نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔
نیشنل ریلی (آر این) کی پہلے مرحلے میں کارکردگی کے سبب تمام رائے عامہ کے جائزوں میں اس کی جیت کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
فرانس الیکشن میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب وہاں معلق پارلیمان کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کیونکہ فرانس کی 577 نشستوں والی قومی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لیے 289 نشستیں درکار ہیں۔
آر این کے رہنما جارڈن بارڈیلا نے ’غیر فطری سیاسی اتحاد‘ کو ان کی پارٹی کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
گیبریل اٹل کو صدر میکخواں نے صرف سات ماہ قبل ہی وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ صبح اپنا استعفیٰ پیش کریں گے۔ تاہم انھوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ ان کا اتحاد تین گنا زیادہ نشستیں جیتنے کے لیے تیار ہے۔
اپنی رہائش گاہ سے خطاب کرتے ہوئے فرانس کے وزیر اعظم گیریل اٹل نے کہا کہ فرانسیسی ووٹروں نے ایک انتہائی حکومت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے ان تمام امیدواروں کی تعریف کی جو آر این کو جیتنے سے روکنے کے لیے دوڑ سے دستبردار ہو گئے تھے۔
خیال رہے کہ کل 217 امیدوار نے آر این کو روکنے کے لیے دستبرداری کا اعلان کیا تھا جس میں میکخواں کی پارٹی کے ارکان بھی شامل تھے۔
گیبریل اٹل نے کہا کہ کل صبح میں اپنا استعفیٰ سونپ دوں گا۔ آج رات سے ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔‘
انتہائی دائیں بازو کے لاکھوں وٹروں کے بارے میں انھوں نے مزید کہا: ’میں آپ میں سے ہر ایک کا احترام کرتا ہوں، کیونکہ فرانسیسی لوگوں کی ایسی کوئی قسم نہیں ہے جو صحیح اور غلط ووٹ دیتے ہیں۔‘