امریکہ میں چند روز قبل لگنے والی خطرناک آگ پر متعدد مقامات پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
مختلف مقامات پر لگی یہ آگ اب تک تقریباً 40 ہزار ایکڑ رقبے کو جلا کر خاکستر کرچکی ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا میں لاس اینجلس اور اس کے مضافاتی علاقوں کے جنگل میں لگنے والی آگ سے ہلاکتوں کی تعداد 25 تک پہنچ گئی ہے جبکہ متعدد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
حکام کے مطابق آگ کے باعث 12 ہزار سے زائد مکان اور عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں ہیں جبکہ 2 لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔
آگ کے باعث اب تک اربوں ڈالر کی املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
موسم کی نگرانی کرنے والی ایک نجی کمپنی نے آگ لگنے سے ہونے والے معاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 250 ارب امریکی ڈالر لگایا۔
رپورٹ کے مطابق 12 ہزار سے زائد فائر فائٹرز، ساڑھے 1100 فائر انجن، 60 طیارے اور 143 واٹر ٹینکر آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جو اب تک آگ پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔
مقامی حکام نے لاس اینجلس میں آگ لگنے کی وجہ تیز ہواؤں اور خشک موسم کو قرار دیا ہے۔
فائر ڈپارٹمنٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے اس پر قابو پانے کی کوششیں منگل اور بدھ کو تیز ہواؤں کی وجہ سے شدید متاثر ہو سکتی ہیں۔
لاس اینجلس اور ونچورا کاؤنٹیز میں 125کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتارسے ہوائیں چل رہی ہیں جس کی وجہ سے جلتی ہوئی چیزیں اڑ کر گرنے سے آگ مزید پھیلنےلگی ہے۔
دوسری جانب جلے ہوئے مکانوں اور عمارتوں کے ملبے میں ممکنہ طورپر موجود افراد کی بھی تلاش جاری ہے۔
حکام کا کہنا ہےکہ آگ ممکنہ طورپر Palisades کے مقبول ہائیک ٹریل سے شروع ہوئی۔ آگ کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیقات جاری ہیں۔
کیلیفورنیا فائر ڈیپارٹمنٹ کے نائب سربراہ نے کہا ہے کہ ہمیں قدرت کی جانب سے رحم کی ضرورت ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس فائر فائٹر ہیں، پانی ہے، ہمیں بس وقت چاہیے۔
آگ کب بجھے گی اس حوالے سے فوری طور پر صرف مفروضے ہی قائم کیے جاسکتے ہیں کیونکہ اس کا انحصار دیگر کئی عوامل کے ساتھ ساتھ ہوا کے چلنے یا نہ چلنے اور بارش کے ہونے یا ہونے پر ہے۔
کیلیفورنیا میں بارش کا موسم عام طور پر دسمبر سے مارچ تک ہوتا ہے اور رواں سال لاس اینجلس میں اب تک صرف 0.01 انچ بارش ہوئی ہے۔