معروف ٹیک کمپنی میٹا کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے انسداد اجارہ داری کے مقدمے کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں اسے انسٹاگرام اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
امریکہ کی وفاقی ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) کی جانب سے کیے گئے مقدمے میں میٹا پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ میٹا نے انسٹاگرام اور واٹس ایپ خرید کر غیر قانونی طور پر حریف پلیٹ فارمز کو دبانے کی کوشش کی۔
پیر کے روز واشنگٹن ڈی سی کی وفاقی عدالت میں میٹا کے سی ای او مارک زکر برگ کو کمپنی کے دفاع کے لیے کٹہرے میں بلایا گیا۔
زکربرگ نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ درحقیقت ہماری ایپلی کیشن کی واحد ترجیح دوستوں اور خاندان کے افراد کی آپس میں سوشل شیئرنگ اور دیگر مواد کی تلاش تھی۔
زکربرگ نے کہا ’کمپنی نے 2018 میں فیصلہ کیا کہ فیس بک صارفین کے دوستوں کی جانب سے شیئر کیے مواد کو دکھانے پر ترجیح دے گا مگر وہ صارفین کے میسجز کے ذریعے مواد شیئر کرنے کے باعث بدلتے رجحانات کو سمجھ نہیں سکے۔‘
انہوں نے کہا ’ہم سمجھ نہیں سکے کہ سوشل انگیجمنٹ کس طرح بدل رہی ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ ایسے مواد کے ساتھ مشغول رہتے ہیں جو ان کے دوستوں کی جانب سے شیئر کیا گیا نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے اندازہ لگایا کہ اب فیس بک پر تقریباً 20 فیصد مواد اور انسٹاگرام پر 10 فیصد مواد صارفین کے دوستوں کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے، ان اکاؤنٹس کے برعکس جو وہ مفادات کی بنیاد پر فالو کرتے ہیں۔
ایف ٹی سی نے ان ای میلز کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں زکربرگ نے ممکنہ فیس بک حریف کو بے اثر کرنے کے طریقے کے طور پر فوٹو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام کو حاصل کرنے کی تجویز پیش کی تھی اور اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انکرپٹڈ میسجنگ سروس واٹس ایپ سوشل نیٹ ورک میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ایف ٹی سی کا دعویٰ ہے کہ میٹا کے پاس ایسے پلیٹ فارمز پر اجارہ داری ہے جو دوستوں اور خاندان کے ساتھ مواد شیئر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جہاں امریکہ میں اس کے اہم حریف اسنیپ چیٹ اور می وی ہیں۔