سعودی عرب نے شمالی غزہ میں اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دو طرفہ معاہدوں پر واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے منسلک نہیں ہیں۔
ریاض میں ایک فیوچر انوسٹمنٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے کہا کہ ’شمالی غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو صرف ایک نسل کشی کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے جو تشدد کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر کو جنم دے رہی ہے۔‘
انہوں نے سعودی عرب کے موقف کا اعادہ کیا کہ وہ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔
اس مجوزہ اقدام پر انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب (اسرائیل سے) معمول کے تعلقات سے پہلے صورت حال کے سازگار ہونے تک انتظار کرے گا۔
انہوں نے کہا ہم صرف اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ شمال (غزہ) میں اب کیا ہو رہا ہے جہاں امداد تک رسائی کی مکمل ناکہ بندی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلسل فوجی حملے کے باعث شہریوں کے لیے پناہ اور محفوظ علاقوں کی تلاش کے لیے کوئی حقیقی راستہ نہیں ہے، جو کچھ وہاں ہو رہا ہے اسے صرف نسل کشی کی ایک شکل کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ’یہ یقینی طور پر انسانی، بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے اور تشدد کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر کو جنم دے رہا ہے۔‘
شہزادہ فیصل نے مزید کہا کہ تجارت اور مصنوعی ذہانت کے بارے میں امریکہ اور سعودی عرب کے ممکنہ معاہدے ’کسی تیسرے فریق سے منسلک نہیں ہیں اور دونوں ملک شاید ان معاہدوں پر بہت تیزی سے پیش رفت کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کچھ اہم دفاعی تعاون کے معاہدے بہت زیادہ پیچیدہ ہیں۔ ہم یقینی طور پر بائیڈن کی انتظامیہ کی مدت (ختم ہونے) سے پہلے انہیں مکمل کرنے کا خیرمقدم کریں گے لیکن یہ ہمارے کنٹرول سے باہر دیگر عوامل پر منحصر ہے۔‘