امریکی حکومت نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک میں زیرتعلیم دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار 500 سے زائد طلبہ کے ویزے منسوخ یا پھر ان کی قانونی حیثیت ختم کر دی ہے۔
حکومت کے اس اقدام کے بعد ان طلبہ کو حراست میں لیے جانے اور امریکہ سے بے دخلی کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک ماہ سے کم دورانیے میں لگ بھگ 160 کالجز اور یونیورسٹیز کے کم از کم 1500 طلبہ کے ویزے منسوخ ہوئے یا پھر ان کی قانونی حیثیت ختم کر دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق امریکی امیگریشن نے جن کے ویزے منسوخ کیے ہیں ان میں زیادہ تر وہ طلبا شامل ہیں جنہوں نے فلسطین کے حامی مظاہروں میں شرکت کی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دیگر ایسے لوگوں کے بھی ویزے منسوخ ہوئے جو بالواسطہ طور پر فلسطین سے رابطے میں تھے جبکہ کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر غزہ کی حمایت کی۔
رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کا الزام ہےکہ ان طلبا نےکیمپس میں یہود دشمنی اور حماس کی حمایت کی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ طلبا، وکلا اور سماجی کارکنوں نے امریکی حکومت کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا۔
مارچ کے آخر میں امریکی وزیر خارجہ نے 300 طلبا کے ویزے منسوخ کیے جانے کا کہا تھا لیکن ویزا منسوخی سے متاثر طلبا کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
امیگریشن لائرزایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ امریکی امیگریشن کے ڈیٹابیس سیوس سے 4700 طلبا کو ہٹایا گیا۔
دوسری جانب امریکی ہائیر ایجوکیشن جریدہ انسائیڈ ہائرایڈ کے مطابق 17 اپریل تک 1489 طلبا ویزوں سے محروم ہوئے، امریکا بھر کی 240 یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبا کے ویزے منسوخ کیے گئے، متاثرہ تعلیمی اداروں میں ہارورڈ،اسٹینفورڈ جیسے نجی ادارے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف میری لینڈ اور کچھ لیبرل آرٹس کالجز بھی شامل ہیں۔