امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو وینزویلا کے کچھ مہاجرین کو ملک بدر کرنے سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ انتظامیہ نے 18ویں صدی کے جنگی قانون ’ایلین اینیمیز ایکٹ‘ کا استعمال کر کے دائرہ کار سے تجاوز کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 36 صفحات پر مشتمل اپنی رائے میں امریکی ضلعی جج فرنینڈو روڈریگز نے قرار دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ وینزویلا کے گینگ ’ٹرین ڈی آراگوا‘ کے مبینہ ارکان کو حراست میں لینے اور ملک بدر کرنے کے لیے ’ایلین اینیمیز ایکٹ‘ پر انحصار نہیں کر سکتی، کیونکہ اس گینگ کی موجودگی اس قانون میں بیان کردہ ’حملے‘ یا ’دراندازی‘ کے زمرے میں نہیں آتی۔
جج فرنینڈو روڈریگز، جنہیں ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران مقرر کیا تھا، نے لکھا کہ تاریخی ریکارڈ واضح کرتا ہے کہ صدر کی جانب سے اعلان کے ذریعے ایلین اینیمیز ایکٹ کا حوالہ دینا اس قانون کے دائرہ کار سے تجاوز کرتا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف اور نہ ہی وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر فیصلے پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ 15 مارچ کو ٹیکساس کے ریمونڈویل میں واقع ’ایل ویلے ڈیٹینشن سینٹر‘ سے کم از کم 137 وینزویلین شہریوں کو اس قانون کے تحت ملک بدر کیا گیا تھا، ان میں سے کئی کے رشتہ داروں اور وکلاء نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ’ٹرین ڈی آراگوا‘ کے ارکان نہیں ہیں اور انہیں انتظامیہ کے الزامات کا جواب دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔
امریکی سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو فیصلہ دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو ’ایلین انیمیز ایکٹ‘ کے تحت کی جانے والی ملک بدریوں میں مہاجرین کو عدالت میں چیلنج کرنے کا موقع دینا ہوگا۔
بعد ازاں، ملک بھر میں ججوں نے اس کے بعد اپنے اضلاع میں ایسی ملک بدریوں کو روکنے کے لیے عارضی احکامات جاری کیے۔
ٹیکساس کے شہر براؤنزویل میں مقیم جج فرنینڈو روڈریگز نے ابتدائی حکم امتناعی جاری کیا۔