16
پاکستان کے ایوانِ زیریں کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس طلب کرتے ہوئے گرفتار اراکینِ اسمبلی کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کے اندر سے اراکین کی گرفتاری کا نوٹس لیا جائے۔
اسپیکر ایاز صادق نے بھی پارلیمنٹ ہاؤس سے اراکین کی گرفتاری پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے پر اسٹینڈ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود کو اس اعتبار سے بدقسمت سمجھتے ہیں کہ ان کی اسپیکرشپ کے دوران پارلیمنٹ پر ماضی میں دو حملے ہو چکے ہیں۔ کل کے واقعے پر کارروائی ہو گی اور خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے۔
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے آٹھ ستمبر کو ہونے والے جلسے کے بعد پارٹی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت، زین قریشی اور ملک عامر ڈوگر سمیت کئی پارٹی رہنما اور اراکینِ اسمبلی گرفتار ہو چکے ہیں جب کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کئی گھنٹوں تک منظر عام سے غائب رہنے کے بعد منگل کی صبح اسلام آباد سے پشاور پہنچ گئے ہیں۔
منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومت اور اپوزیشن بینچز سے پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاری پر گرما گرم بحث کے دوران اسپیکر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے تمام دروازوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج منگوا لی ہیں۔ کل جو کچھ ہوا اس پر خاموش نہیں رہنا، اس پر ایکشن لینا ہے اور ایف آئی آر کٹوانی پڑی تو کٹوائیں گے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ شب پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی ارکان نے پناہ لی جنہیں نقاب پوش افراد نے حراست میں لیا۔
انہوں نے کہا کہ جمشید دستی اور مولانا نسیم کو پارلیمنٹ کی مسجد سے اٹھایا گیا۔ ہم اسرائیل میں نہیں پاکستان میں رہتے ہیں۔ جس نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولا، اگر آرٹیکل چھ لگانا ہے تو اس پر لگائیں۔
علی محمد خان کی تقریر کے دوران سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی قومی اسمبلی کی کارروائی کو بھی روک دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف ‘اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر 2024’ کے تحت تھانہ سنگجانی اور تھانہ نون میں مقدمات درج کیے ہیں۔ مقدمات میں کارِ سرکار میں مداخلت، توڑ پھوڑ اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی دفعات شامل ہیں۔
مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، زرتاج گل، عامر مغل، شعیب شاہین، شیر افضل مروت کے علاوہ سیمابیہ طاہر اور راجہ بشارت سمیت 28 مقامی رہنما نامزد ہیں۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف جس قانون کے تحت مقدمات درج ہوئے ہیں وہ قانون جلسے سے چند روز قبل ہی منظور ہوا تھا جس پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے سات ستمبر کو یعنی جلسے سے ایک روز قبل ہی دستخط کیے تھے۔
اسلام آباد میں اجتماعات سے متعلق نئے قانون کے تحت پہلا مقدمہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف درج گیا گیا ہے۔
عدالت نے پولیس کی استدعا پر پانچ ارکانِ اسمبلی سمیت آٹھ ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر آٹھ روز کے لیے پولیس کے حوالے کردیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ملزمان جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں دوبارہ پیش کیے جائیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی سمیت دیگر کا آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں اڈیالہ جیل بھجوا دیا گیا جب کہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کو اس مقدمے سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔