پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم میں متحارب فریقین کے درمیان ارضی امن معاہدہ طے پاگیا۔
جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہوتے ہی 21 نومبر سے جاری جھڑپیں رک گئی ہیں اور حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
کئی دن سے جاری مسلسل جھڑپوں کے سبب علاقے میں اشیائے خور و نوش کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی مداخلت سے ہفتے کی شام فریقین جنگ بندی اور مسئلے کو پر امن طور پر مذاکرات سے حل کرنے پر متفق ہوئے تھے۔
کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کا کہنا تھا کہ اتوار کو ضلع بھر میں حالات پر امن رہے۔
حکام کے مطابق 21 نومبر سے اب تک فائرنگ کے واقعات میں 130 افراد ہلاک اور 186 زخمی ہوئے ہیں۔
زخمیوں میں متعدد افراد اب بھی پاڑہ چنار، صدا، ہنگو اور کوہاٹ کے اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔
21 نومبر کو ایک قافلے پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 130 کے لگ بھگ اموات ہوئی ہیں۔
ان جھڑپوں دوران متعدد دکانیں اور گھر فائرنگ کی زد میں آ کر تباہ ہوئے ہیں۔مخدوش حالات میں گھروں کو نذر آتش کیے جانے کے واقعات کے سبب کئی خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔