امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے ٹیرف کے اعلان پر امریکہ کے بڑے شراکت داروں کی جانب سے ابتدائی طور پر نپا تُلا ردعمل سامنے آیا ہے۔
یورپی یونین نے امریکی صدر کی جانب سے عائد کیے جانے والے ٹیرف کے جوابی اقدام کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وون نے ردعمل میں ٹیرف کو عالمی معیشت کے لیے دھچکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو یورپی یونین جوابی اقدامات کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جوابی اقدامات کے پیکیج کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور پہلے مرحلے میں سٹیل پر عائد کیے گئے ٹیرف کا جواب دیا جائے گا۔
اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی جن کو صدر ٹرمپ کے کافی قریب سمجھا جاتا ہے، نے یورپی یونین کے خلاف 20 فیصد ٹیرف کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کسی کا بھی فائدہ نہیں۔‘
انہوں نے تجارتی جنگ سے بچنے کا راستہ تلاش کرنے کا مشورہ بھی دیا۔
انہوں نے فیس بک پر ایک بیان میں کہا کہ ’ہم امریکہ کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے جو بھی ہو سکا کریں گے تاکہ تجارتی جنگ سے بچا جا سکے کیونکہ اس سے مغرب دوسرے عالمی کھلاڑیوں کے مقابلے میں کمزور ہو گا۔‘
ٹرمپ کے اعلان کے تھوڑی دیر بعد برطانوی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ امریکہ برطانیہ کا قریبی اتحادی رہے گا۔
بزنس سیکریٹر جوناتھن رینولڈز کا کہنا تھا کہ ’یو کے کو امید ہے کہ وہ ایسے معاہدے تک پہنچ جائے گا جس کی بدولت دس فیصد ٹیرف کے اثرات کم ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی تجارتی جنگ نہیں چاہتا اور ہماری توجہ کسی معاہدے تک پہنچنے پر مرکوز رہے گی اور حکومت سے جو بھی بن پایا ملک کے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے کرے گی۔
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ وہ فوری طور پر ٹیرف کے بدلے میں کوئی جوابی قدم نہیں اٹھائیں گے۔
میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام کا کہنا ہے کہ وہ مزید تفصیلات سامنے آنے کا انتظار کریں گی کہ اس نئے ٹیرف سے ان کا ملک متاثر ہو گا یا نہیں۔
ایک نیوز بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ ’سوال یہ نہیں ہے کہ آپ میرے اوپر ٹیرف لگاتے ہیں، میں آپ پر ٹیرف عائد کرنے جا رہی ہوں، ہماری دلچپسی صرف میکسیکو کی معیشت کو مضبوط کرنے میں ہے۔‘
انہوں نے جوابی اقدام کرنے والے ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں ان کو اس پر الزام نہیں دوں گا کیونکہ ایسا انہوں نے اپنے ملک کی معیشت کے لیے کیا، مگر اب ہم بھی یہی اقدام کرنے جا رہے ہیں۔‘