نیویارک کی ایک عدالت نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہش منی کیس میں سزا کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی ہے۔
اپنے فیصلے میں جج مرچن نے ٹرمپ کے اُن کئی دعووں کو مسترد کر دیا کہ پراسیکیوٹرز کے شواہد آفیشل ایکٹ کے زمرے میں آتے ہیں اور انہیں صدارتی استثنی حاصل ہے۔
41 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں جج مرچن نے کہا کہ پراسیکیوٹرز نے اس بات پر دلائل دیے کہ ٹرمپ کا اقدام خالصتاً ذاتی حیثیت میں تھا نہ کہ بطور صدر کوئی سرکاری کام تھا۔
جج نے کہا کہ اگر استغاثہ نے غلطی سے ایسے شواہد پیش کر دیے تھے جنہیں استثنی کے دعوے کے تحت چیلنج کیا جا سکتا تھا، تو ثبوت کی روشنی میں ایسی غلطی بے ضرر تھی۔
امریکہ کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ صدر کو سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران قانونی چارہ جوئی سے محدود استثنٰی حاصل ہے۔
ٹرمپ کے خلاف ہش منی کیس کے دوران پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ نومنتخب صدر کو گنجائش دینی چاہیے۔ لیکن اُن کا اصرار تھا کہ ٹرمپ کی سزا برقرار رہنی چاہیے۔
ہش منی کیس میں درخواست مسترد ہونے پر ٹرمپ کے وکلا نے فوری طور پر اپنا کوئی مؤقف نہیں دیا ہے۔
ٹرمپ کے کمیونی کیشن ڈائریکٹر اسٹیون چانگ نے ایک بیان میں جج مرچن کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے استثنا سے متعلق فیصلے میں براہِ راست مداخلت قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس غیر قانونی مقدمے کو کبھی نہیں لایا جانا چاہیے تھا اور قانون کا تقاضہ ہے کہ اس کیس کو فوری طور پر خارج کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ رواں برس مئی میں جیوری نے ٹرمپ کو 2016 میں سابق پورن اسٹار اسٹورمی ڈینئل کو ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر رقم کی ادائیگی کے معاملات سے متعلق 34 مختلف الزامات میں فردِ جرم عائد کی تھی۔
ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخابات کے دوران پورن اسٹار کو جنسی تعلقات پر خاموشی اختیار کرنے پر رقم کی ادائیگی کی تھی۔
اسٹورمی ڈینئل کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے تھے۔
مذکورہ کیس میں جیوری کے فیصلے کے ایک ماہ بعد سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم نامے میں قرار دیا تھا کہ سابق صدور کو عدالتی کارروائی سے محدود استثنی حاصل ہے۔