روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی پر دونوں ممالک کے حکام کے درمیان استنبول میں مذاکرات ہوئے۔
یوکرین جنگ کے حوالے سے ماسکو اور کیئف کے درمیان ترکیہ کی میزبانی میں تین سالوں میں یہ پہلے براہ راست مذاکرات ہیں۔
استنبول میں پونے والے یہ مذاکرات 2 گھنٹے تک جاری رہے جس میں دونوں ممالک کے نے شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق ترک وزیرخارجہ اورانٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ بھی مذاکرات میں موجود تھے۔
استنبول میں امن مذاکرات کا دور ختم ہونے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے یوکرینی وزیر دفاع رستم عمروف نے کہا کہ ہم نے دونوں جانب سے 1000 جنگی قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے جبکہ سیز فائر سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔
یوکرینی وزیر دفاع نے بتایا کہ بات چیت کےاگلے دور کا اعلان جلد ہوگا جبکہ روسی صدر پیوٹن اور یوکرینی صدر زیلنسکی درمیان ممکنہ ملاقات سے متعلق بھی بات چیت کی گئی۔
واضح رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جمعرات کے روز یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی کی جانب سے براہِ راست مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اس کے بجائے ایک نچلی سطح کا وفد مجوزہ امن مذاکرات کے لیے بھیجا تھا۔
اس صورتحال پر یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا تھا کہ پوتن کا مذاکرات میں ذاتی طور پر شرکت نہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں، دوسری جانب، روس نے یوکرین پر الزام لگایا کہ وہ محض مذاکرات کا تاثر دے رہا ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہاکہ یوکرین کی اولین ترجیح ’ بغیر کسی شرط کے جنگ بندی’ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر روسی وفد اس پر متفق نہیں ہو سکتا تو ’ یہ واضح ہے کہ پوتن جنگ ختم نہیں کرنا چاہتے۔’
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس کے ساتھ مذاکرات میں جنگ بندی پر اتفاق نہ ہونے پر عالمی رہنماؤں سے سخت ردعمل کی اپیل کردی۔