امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی (یو ایس ایڈ) کے 2 سابق اعلیٰ عہدیداروں اور صورتحال سے باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ ایلون مسک کی لاگت میں کٹوتی کرنے والی ٹیم یو ایس ایڈ کو ختم کرنے کے فیصلے کو حتمی شکل دے رہی ہے، ہزاروں مقامی کارکنوں، امریکی سفارت کاروں اور سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے کا حکم دینے والی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جمعے کے روز کانگریس کو مطلع کیا گیا کہ یو ایس ایڈ کے اپنے تقریباً تمام ملازمین کو ستمبر تک برطرف کیا جا رہا ہے، اس کے تمام بیرون ملک دفاتر بند کر دیے جائیں گے اور کچھ کام محکمہ خارجہ میں ضم کر دیے جائیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور حکومتی اخراجات میں کمی کی نگرانی کرنے والے ان کے مشیر مسک نے فروری میں یو ایس ایڈ کو بند کرنے اور اس کے آپریشنز کو محکمہ خارجہ میں ضم کرنے کا عمل شروع کیا تھا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ٹرمپ کی امریکا فرسٹ پالیسیوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
سابق عہدیداروں اور صورتحال سے واقف ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یو ایس ایڈ کے انسانی وسائل کے دفتر نے ایک کانفرنس کال میں علاقائی بیوروز کو بتایا کہ مقامی طور پر بھرتی کیے گئے تمام 10 ہزار سے زائد غیر ملکی شہریوں کو برطرفی کے نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں، جس کا اطلاق اگست میں ہوگا۔
سابق عہدیداروں اور ذرائع نے بتایا کہ امریکی سفارت کاروں اور سرکاری ملازمین کو بھی نوٹسز بھیجے جائیں گے، جو 60 سال سے زائد عرصے سے امریکہ کی سب سے بڑی غیر ملکی امداد فراہم کرنے والے ادارے سے منسلک رہے ہیں۔
ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کیا ہے کہ ایجنسی دھوکا دہی سے بھری ہوئی ہے، اور اسے ’بنیاد پرست بائیں بازو کے پاگل‘ چلا رہے ہیں، جب کہ مسک نے اس پر ایک ’مجرمانہ‘ تنظیم ہونے کا جھوٹا الزام لگایا ہے۔
یو ایس ایڈ کے اپنے ہی ہزاروں عملے کو انتظامی چھٹیوں پر بھیج دیا گیا ہے، سیکڑوں ٹھیکیداروں کو برطرف اور 5 ہزار سے زیادہ پروگرام ختم کر دیے گئے تھے، جس سے عالمی سطح پر انسانی امداد کی کوششیں متاثر ہوئی تھیں، جن پر لاکھوں افراد انحصار کرتے ہیں۔
یو ایس ایڈ 60 سے زائد ممالک میں اپنے مشنز چلاتا رہا ہے اور اس کے زیادہ تر فنڈز انسانی امداد اور صحت کے پروگراموں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔