امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رپبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے حصول کے لیے ریاست آئیووا میں جماعت کے اندر ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے، جس کے بعد وہ مسلسل تیسری مرتبہ امریکہ کے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے اہم ترین امیدوار بن گئے ہیں۔
قانونی مسائل اور فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ ’آئیوا کاکس‘ کے مباحثے کے نتائج سے پارٹی میں ایک بار پھر اپنی سیاسی طاقت دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
مقابلے میں فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سانٹس دوسرے جبکہ اقوام متحدہ کے لیے سابق امریکی سفیر نکی ہیلی تیسرے نمبر پر رہیں۔
کئی ماہ سے جاری صدارتی مہم کاکس پر اپنا پہلا فیصلہ سنانے کے لیے امریکی ریاست آئیوا کے شہری شدید سردی میں 100 سے زائد سکولوں، کمیونٹی سینٹرز اور دیگر مقامات پر جمع ہوئے۔
ایڈیسن ریسرچ پول کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیے، جو 2016 کے رپبلکن کاکس میں ریکارڈ ایک لاکھ 87 ہزار کاسٹ ووٹ سے کہیں کم تھے۔
ایڈیسن کے مطابق، 90 فیصد ووٹوں کے نتائج میں ٹرمپ نے 50 اعشاریہ 9 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ڈی سانٹس کو 21 اعشاریہ 4 فیصد اور ہیلی کو 19 فیصد لوگوں کی حمایت ملی۔
انڈین نژاد امریکی کاروباری اور رپبلکن صدارتی امیدوار وویک رامسوامی بھی صدارت کے انتخابات کے لیے نامزدگی کے حصول کی دوڑ میں شامل تھے، تاہم آٹھ فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
ایڈیسن ریسرچ پول کے سروے کے مطابق کاکس جانے والے بڑے پیمانے پر ٹرمپ کے ہی حامی نظر آئے اور ان میں سے صرف ایک تہائی کا ماننا تھا کہ اگر ٹرمپ کسی جرم کے مرتکب ہوئے تو صدارت کے لیے نااہل ہوں گے۔ دو تہائی نے ٹرمپ کے اس بیانیے کو مسترد کیا کہ 2020 کا انتخاب وہ جیتے تھے اور ان کے ساتھ دھوکہ ہوا۔
آئیوا کے بعد رپبلکنز اب سے آٹھ دن بعد ریاست نیو ہیمپشائر میں صدارتی انتخابات کے لیے امیدوار کا انتخاب کریں گے، جہاں پولز کے مطابق نکی ہیلی، ڈونلڈ ٹرمپ سے کچھ ہی پیچھے ہیں اور وہ اس دوڑ میں ان سے آگے نکلنے کی کوشش کریں گی تاہم 23 جنوری کو ہونے والی پولنگ میں ڈی سانٹس بہت پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے آئیوا کی جیت کے بعد ٹرمپ کو رپبلکن جماعت کی طرف سے بطور صدارتی امیدوار ’فرنٹ رنر‘ قرار دے دیا۔
بائیڈن نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا: ’یہ انتخابات ہمیشہ سے میرے اور آپ بمقابلہ انتہائی دائیں بازو کے رپبلکنز میں رہا ہے۔ یہ کل بھی سچ تھا اور یہ مستقبل میں بھی سچ ہو گا۔