امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن مشرق وسطی کے دورے پر پیر کے روز قاہرہ پہنچ گئے ہیں، جہاں انہوں نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ خطے کے رہنما حماس پر دباؤ ڈالیں تاکہ حماس جنگ بندی معاہدے کے لیے پیش کردہ امریکی پلان کو قبول کر لے۔
اسرائیل کی غزہ جنگ کے دوران مشرق وسطی کے بلنکن کے آٹھویں دورے کا نکتہ آغاز قاہرہ بنا ہے ۔ جہاں انہوں نے پیر کے روز صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی ہے۔
مصری صدر کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق صدر السیسی کے ساتھ ملاقات کے دوران مصری انٹیلیجنس چیف عباس کمال بھی موجود رہے اور جنگ بندی کی تازہ کوششوں، پیش رفت اور امکانات کا جائزہ لیا گیا۔
قاہرہ کے بعد دورے کے اگلے مرحلے پر یروشلم روانہ ہونے سے پہلے انٹونی بلنکن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے ‘السیسی کے ساتھ بڑا اچھا تبادلہ خیال رہا ہے۔ خطے کے رہنماؤں کو حماس پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ حماس جنگ بندی معاہدے کے لیے پیش کردہ پلان کو قبول کرے۔
نیز رفح راہداری کھولنے سے متعلق توقع ہے کہ دونوں طرف بات ہوگی تاکہ امدادی سامان غزہ میں آسکے۔ ڈیل ہو یا نہ ہو یہ ضروری ہے کہ غزہ میں سامان آتا رہے کہ امدادی سامان غزہ کے فلسطینیوں کی ضرورت ہے۔’
بلنکن اپنی اگلی منزل یروشلم میں وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کریں گے۔ نیز ان کی جنگی کابینہ سے مستعفی ہونے والے وزیر بینی گانزیٹ سے بھی ملاقات ہوگی۔ جنھوں نے اتوار کے روز جنگی کابینہ سے الگ ہونے کے لیے استعفیٰ دیا تھا۔
بلنکن یروشلم سے فارغ ہونے کے بعد شاہ عبد اللّٰہ سے ملنے اردن جائیں گے اور غزہ میں جنگ بندی کے علاوہ خطے کی صورتحال پر بھی بات چیت کریں گے۔
واضح رہے ان کے اس دورے سے پہلے امریکہ کی طرف سے اپنے اتحادی ملکوں جن میں عرب ملک بھی شامل ہے ان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ تین مرحلوں پر مشتمل جوبائیڈن پلان کو ماننے کے لیے حماس پر دباؤ ڈالیں۔
تجزیہ کار بلنکن کے اس دورے کو غزہ جنگ کے مشکل مرحلے کا دورہ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ صدر جوبائیڈن کے پلان کے مطابق ابھی تک کسی نے بھی باضابطہ اور مثبت اشارہ نہیں دیا ہے۔