گرین لینڈ کے وزیراعظم اور عبوری حکومت نے امریکی وفد کے دورے کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
واشنگٹن کی طرف سے اس ہائی پروفائل دورے کے اعلان کے بعد 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ڈنمارک کے زیرِانتظام اس نیم خودمختار علاقے کے رہائشی اس پر تنقید کر رہے ہیں۔
گرین لینڈ کے وزیراعظم میوٹ ایگیڈے نے ہائی پروفائل امریکی دورے کو ’اشتعال انگیزی‘ قرار دیا ہے اور کہا کہ ’ان کا ملک میں خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ معاہدے کی وجہ سے امریکی فوجی اڈے کا دورہ روکنا ممکن نہیں ہو گا، لیکن عبوری حکومت امریکی وفد سے ملاقات نہیں کرے گی۔
گرین لینڈ کے وزیراعظم نے کہا کہ ’کچھ عرصہ پہلے تک ہم امریکیوں پر بھروسہ کر سکتے تھے، جو ہمارے اتحادی اور دوست تھے، اور جن کے ساتھ مل کر کام کرنا ہمیں بہت اچھا لگا، لیکن وہ وقت گزر گیا ہے۔‘
ڈیموکریٹس کے رہنما جینز فریڈرک نیلسن نے ملک کے اندر سیاسی اتحاد پر زور دیا اور امریکی وفد کے دورے کے وقت پر سخت تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں طاقت کے اس کھیل میں حصہ لینے کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے جس کا انتخاب ہم نے خود نہیں کیا۔‘
واضح رہے کہ اوشا وینس کی قیادت میں وفد گرین لینڈ میں امریکی فوجی اڈے کا دورہ کرے گا۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور توانائی کے سیکریٹری کرس رائٹ وفد کا حصہ ہوں گے۔
یہ دورہ صدر ٹرمپ کے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے گرین لینڈ جانے کے دو ماہ بعد ہوا ہے جسے ’نجی دورہ‘ قرار دیا گیا تھا۔
امریکی وفد کا دورہ جمعرات 27 مارچ سے ہفتہ 29 مارچ تک ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مواقع پر اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ امریکہ کا مقصد ’گرین لینڈ کو خریدنا ہے۔‘
امریکی صدر یہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچا۔ انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے واشنگٹن کی جانب سے طاقت کے استعمال کو بھی مسترد نہیں