تہران پہنچنے سے قبل غیر ملکی ادار ے گفتگو سے اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی نے دعویٰ کیا کہ ایران نیوکلیئر بم بنانے سے زیادہ دور نہیں ہے۔
تہران اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ مذاکرات سے قبل آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے ایران اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ محمد اسلامی سے ملاقات کی۔
اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے محمد اسلامی سے ملاقات سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کی۔
عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ آئی اے ای اے کے سربراہ سے ملاقات بہت مفید رہی، جب کہ آنے والے مہینوں میں ایرانی جوہری مسئلے کا پرامن حل نکالنے میں آئی اے ای اے کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے’۔
ایرانی وزیر خارجہ نے رافیل گروسی سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ایجنسی کو سیاست سے دور رکھیں‘، کیوں کہ کچھ عناصر حالیہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ نے بھی ان ملاقاتوں کو مثبت قرار دیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت سے متعلق معتبر یقین دہانی فراہم کرنے کے لیے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون انتہائی ضروری ہے ، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سفارت کاری کی فوری ضرورت ہے۔
ایران روانہ ہونے سے قبل رافیل گروسی نے کہا تھا کہ تہران ’جوہری بم کے حصول سے زیادہ دور نہیں‘ ہے۔
آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، ایران کے پاس تقریباً 274.8 کلوگرام (605 پاؤنڈ) یورینیم موجود ہے، جو 60 فیصد تک افزودہ کیا گیا ہے۔
یہ سطح 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے، تاہم یہ اب بھی 90 فیصد کی اس حد سے کم ہے جو ایک جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
2015 کے جوہری معاہدے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی علیحدگی کے ایک سال بعد ایران نے بھی اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں کم کرنا شروع کر دی تھیں جس کے تحت ایران کو اقتصادی پابندیوں سے ریلیف دیا گیا تھا اور اس کے بدلے اپنے جوہری پروگرام پر آئی اے ای اے کی نگرانی قبول کرنا تھیں۔
یاد رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان عمان کی میزبانی میں تہران کے جوہری پروگرام پر بالواسطہ مذاکرات کا آغاز 12 اپریل کو ہوا تھا، مذاکرات میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی وفد کی قیادت صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کی تھی۔
ایرانی اور امریکی وفود عمان کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے لیے ہفتہ کو روم میں جمع ہوں گے۔
دونوں حریف 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد پہلی بار مذاکرات کررہے ہیں۔