ایک اسرائیلی اہلکار نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے آئندہ مہینوں میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کا امکان مسترد نہیں کیا ہے
اسرائیلی حکام نے تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا عہد کیا ہے اور نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے نتیجے میں اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے۔
اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ فوج ایران پر ایک محدود حملہ کر سکتی ہے جس کے لیے امریکی حمایت کی کم ضرورت ہو گی۔ اس طرح کا حملہ اسرائیل کی ابتدائی تجویز سے بہت کم درجے کا ہو گا۔
ایک سینئر ایرانی سکیورٹی اہلکار نے کہا، تہران اسرائیلی منصوبوں سے واقف ہے اور کسی بھی حملے کا “مضبوط اور فیصلہ کن جواب” دے گا۔
اہلکار نے رائٹرز کو بتایا: “ہمارے پاس قابلِ اعتماد ذرائع سے انٹیلی جنس معلومات ہیں کہ اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پر بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے جاری سفارتی کوششوں پر عدم اطمینان کی وجہ سے ہے اور اس لیے بھی کہ نیتن یاہو کو اپنا سیاسی مستقبل بچانے کے لیے ایسے اقدام کی ضرورت ہے۔”
عمان کی ثالثی میں امریکہ اور ایران کے درمیان ابتدائی جوہری مذاکرات کا دوسرا دور ہفتے کے روز روم میں منعقد ہو رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق گذشتہ کئی مہینوں کے دوران اسرائیل نے ٹرمپ انتظامیہ کو ایرانی تنصیبات پر حملہ کرنے کے کئی امکانات تجویز کیے ہیں جن میں سے بعض موسمِ بہار کے آخر اور موسمِ گرما کے لیے طے کیے گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں میں فضائی حملوں اور اسپیشل فورسز کی مختلف شدت کی حامل کارروائیوں کا مجموعہ شامل ہے جو تہران کے جوہری پروگرام کو مہینوں، ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت کو روک سکتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے بدھ کے روز دعوی کیا تھا کہ کہ ٹرمپ نے اس ماہ کے شروع میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی میٹنگ میں نیتن یاہو سے کہا تھا کہ واشنگٹن تہران کے ساتھ سفارتی مذاکرات کو ترجیح دینا چاہتا ہے اور وہ مختصر مدت میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ہے۔