ایران کے نائب صدر جواد ظریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے بتایا کہ ’جواد ظریف کا استعفیٰ صدر مسعود پزشکیان کو موصول ہوا ہے، جنہوں نے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔‘
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں جواد ظریف نے کہا کہ مجھے اپنے اور اپنے خاندان کے خلاف سب سے خوفناک توہین، بہتان اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور میں اپنی 40 سال کی خدمت کے سب سے تلخ دور سے گزرا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت پر مزید دباؤ سے بچنے کے لیے، عدلیہ کے سربراہ نے مجھے مستعفی ہونے کی سفارش کی جسے میں نے فوراً قبول کر لیا۔
ان کے بہت سے ناقدین نے دلیل دی کہ ان کی تقرری نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ ان کے بچے امریکہ میں پیدا ہونے کی وجہ سے امریکی شہری ہیں۔
نہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’گذشتہ چار دہائیوں کے دوران میں نے مسلط کردہ جنگ کے خاتمے سے لے کر جوہری کیس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے تک، قومی مفادات کو آگے بڑھانے میں اپنے چھوٹے کردار کے لیے ان گنت توہین اور الزامات برداشت کیے ہیں اور میں ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے جھوٹ اور توڑ پھوڑ کے سیلاب کے سامنے خاموش رہا ہوں۔‘
جواد ظریف نے کہا کہ انہیں عدلیہ کے سربراہ نے مدعو کیا تھا، جنہوں نے ملک کی موجودہ حالت کی طرف اشارہ کیا اور انہیں ’حکومت پر مزید دباؤ کو روکنے کے لیے اکیڈمی میں واپس آنے کا مشورہ دیا۔‘
ظریف نے لکھا کہ ’مجھے امید ہے کہ میرے جانے سے عوام کی مرضی اور حکومت کی کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔‘
صدر پزشکیان، جنہوں نے جولائی میں عہدہ سنبھالا تھا، نے یکم اگست کو ظریف کو اپنا نائب صدر برائے سٹریٹیجک امور نامزد کیا تھا لیکن ظریف نے دو ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد استعفیٰ دے دیا، اس سے پہلے کہ وہ ماہ کے آخر میں عہدے پر واپس آئیں۔
ظریف اعتدال پسند صدر حسن روحانی کی حکومت میں 2013 اور 2021 کے درمیان ایران کے اعلیٰ سفارت کار تھے۔
وہ 2015 کے جوہری معاہدے کے لیے طویل مذاکرات کے دوران بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوئے جسے باضابطہ طور پر مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔