سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایک عدالتی فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں دوسری آئینی ترمیم ‘مسلمان’ کی تعریف سے انحراف کیا ہے، حالاں کہ تاثر بالکل غلط ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے حال ہی میں ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی نامی ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جن کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مبارک احمد ثانی بنام ریاست مقدمے میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا تھا کہ آیف آئی آر کے الزامات کو جوں کا توں تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی ان پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ممنوعہ کتب کی نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی قید ہو سکتی ہے جب کہ ملزم پہلے ہی ایک سال جیل میں گزار چکا ہے۔ لہذٰا آئینی دفعات، اسلامی احکام اور انصاف کے تقاضوں کے تحت سپریم کورٹ نے ملزم کی رہائی کا حکم دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ آئین میں ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب پر چلنے کا حق ہے۔