برطانوی مسلح افواج کے سربراہ ایڈمرل سر ٹونی ریڈاکن نے دس سال بعد چین کا پہلا سرکاری دورہ کیا، جہاں انہوں نے چینی عسکری قیادت سے مشترکہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔
چینی وزارت دفاع نے مختصر بیان میں کہا کہ یہ ملاقات بیجنگ میں ہوئی اور دونوں فریقین نے “مشترکہ تشویش کے امور” پر گفتگو کی۔
ایڈمرل ریڈاکن نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ “ہم نے اتفاق کیا کہ اس غیر مستحکم دنیا میں، عالمی مفادات رکھنے والی ذمہ دار اقوام کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔”
برطانیہ کے وزیر دفاع جان ہیلی نے تصدیق کی کہ یہ دورہ رواں ہفتے کے اوائل میں ہوا۔
انہوں نے برسلز میں صحافیوں کو بتایا کہ “فوجی قیادت کے مابین رابطہ ہمیشہ اہم ہوتا ہے، اور یہی ایڈمرل کا مقصد تھا۔”
ہیلی کے مطابق، ایڈمرل نے چین کے ساتھ انڈو پیسفک خطے میں امن و استحکام اور عسکری جارحیت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا۔ تاہم، انہوں نے براہ راست تائیوان کا ذکر نہیں کیا، جہاں چین نے حالیہ دنوں میں بڑی فوجی مشقیں کی ہیں جنہیں خطے میں کشیدگی کا سبب سمجھا جا رہا ہے۔
چین تائیوان کو اپنا باغی صوبہ سمجھتا ہے اور طاقت کے استعمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیتا، جب کہ بیشتر تائیوانی خود کو علیحدہ ملک سمجھتے ہیں اور موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ دورے کے بعد ایڈمرل ریڈاکن نیٹو اتحادیوں کے ساتھ یوکرین پر مذاکرات کے لیے برسلز پہنچ گئے ہیں۔