پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ رواں برس مارچ میں خیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں چینی انجینیئرز پر ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی اور یہ حملہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قیادت کے احکامات پر ہوا تھا۔
اتوار کو پاکستانی وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے کوآرڈینیٹر رائے طاہر نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ چینی انجینیئر پر حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی افغانستان میں تیار کی گئی تھی۔
نیکٹا کے کوآرڈینیٹر رائے طاہر نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ پاکستان اور چین کے تعلقات پر حملہ تھا‘ اور اس حملے کے فوراً بعد پاکستانی حکومت نے ایک جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی جس میں تمام اداروں کے افسران شامل تھے۔
حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’گاڑی افغانستان میں تیار ہوئی، ٹرانسپورٹ بھی افغانستان سے ہوئی اور خودکش بمبار کو ٹریننگ بھی افغانستان میں دی گئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ چینی شہریوں پر حملہ ٹی ٹی پی کی قیادت کی ہدایات پر کیا گیا اور انھوں نے اس حملے کے لیے ’ہماری مخالف انٹیلی جنس ایجنسی سے بھاری رقم بھی وصول کی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا پاکستانی سکیورٹی ادارے اس حملے میں ملوث 11 افراد کو گرفتار کر چکے ہیں اور وہ خیبر پختونخوا کے محکمہ انسدادِ دہشتگری کی تحویل میں ہیں۔
خیال رہے پاکستانی حکومت کا مؤقف ہے کہ ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت اس وقت افغانستان میں موجود ہے۔ ماضی میں ٹی ٹی پی اس حملے میں ملوث میں ہونے کی تردید کر چکی ہے۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ ’ہم افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہاں پر جو بختیار شاہ، قاری عبداللہ اور خان لالہ ہیں انھیں فوری طور پر گرفتار کریں۔‘
’خاص طور پر جو ٹی ٹی پی کا امیر ہے نور ولی محسود اور کمانڈر عظمت اللہ محسود اور جتنی بھی ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت افغانستان میں ہے ان کو وہ فوری طور پر گرفتار کریں۔‘
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے لیکن ایسا اس ہی صورت میں ممکن ہے جب افغانستان کی عبوری حکومت اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
خیال رہے رواں برس 26 مارچ کو بشام کے قریب ہونے والے خودکش کار حملے میں پانچ چینی شہری اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوا تھا۔