بھارت کی سپریم کورٹ نے مدارس پر پابندی سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں پر منگل کو چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بینچ نے فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ نے یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے آئینی جواز کو برقرار رکھتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کسی بھی قانون کو اسی صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے جب ریاست میں قانون سازی کی اہلیت نہ ہو۔
عدالت کے مطابق مذکورہ ایکٹ کا مقصد مدارس میں تعلیم کی سطح کو معیاری بنانا ہے۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ سیکولرزم کا مطلب ‘جیو اور جینے دو’ ہے۔ مدرسہ ایکٹ مدارس کے یومیہ کام کاج میں مداخلت نہیں کرتا۔
ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ مدارس کو ریگولیٹ کرنا قومی مفاد میں ہے۔ اقلیتوں کو الگ تھلگ کر کے ملک کی سیکڑوں سال کی جامع ثقافت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے اس سے قبل فریقین وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر 22 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے 22 مارچ کو اپنے فیصلے میں ‘مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ’ کو سیکولرزم کے اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے غیر آئینی قرار دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو وہاں سے نکال کر ریگولر اسکولوں میں داخل کرائے۔
بھارتی ریاست اترپردیش میں تقریباً ساڑھے 23 ہزار مدارس ہیں جن میں سے 16,513 تسلیم شدہ ہیں۔ یعنی وہ ریاستی حکومت میں رجسٹرڈ ہیں۔ ریاستی حکومت 560 مدارس کو مالی امداد بھی دیتی ہے جب کہ دیگر مدارس اپنے اخراجات عوامی عطیات سے پورے کرتے ہیں۔