تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم تھاکسن شناوترا نے 2 دہائی قبل ملک کے جنوبی حصے میں فوج کے ٹرکوں میں دم گھٹنے والے متعدد مسلمان مظاہرین کے ’قتل عام‘ پر معافی مانگی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ معافی ’تک بائی قتل عام‘ کے نام سے مشہور اس واقعے پر عوامی سطح پر مانگی جانے والی پہلی معافی ہے، اور یہ معافی ایک قانون کی میعاد ختم ہونے اور 7 مشتبہ افراد کے خلاف قتل کے الزامات ختم ہونے کے تقریباً 4 ماہ بعد سامنے آئی ہے۔
قتل عام کے وقت وزیر اعظم رہنے والے تھاکسن نے کہا کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کے لیے معافی مانگنا چاہتے ہیں جس سے لوگوں کو ’بے چینی‘ کا احساس ہوا ہو۔
’ڈیپ ساؤتھ‘ کے نام سے مشہور علاقے کے 19 سال میں پہلے دورے کے دوران قتل عام کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ ’جب میں وزیر اعظم تھا، تو میرا مقامی لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کا پختہ ارادہ تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر مجھ سے کوئی غلطی یا عدم اطمینان ہوا ہے، تو معذرت خواہ ہوں۔‘
تھائی لینڈ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ’دوائے جے‘ کی شریک بانی انچنا ہیمینا کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب تھاکسن نے معافی مانگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر وہ (معافی مانگنے کے بارے میں) مخلص ہیں تو انہیں مرنے والوں کے اہل خانہ سے آمنے سامنے جاکر بھی معافی مانگنی چاہیے۔
25 اکتوبر 2004 کو سیکیورٹی فورسز نے ملائیشیا کی سرحد کے قریب واقع صوبہ نارتھیوت کے قصبے تک بائی میں پولیس اسٹیشن کے باہر احتجاج کرنے والے ہجوم پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 7 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
25 اکتوبر 2004 کو تھائی سیکیورٹی فورسز نے نارتھیوت صوبے میں ایک پولیس اسٹیشن کے باہر احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فائرنگ کی، جس سے 7 افراد ہلاک ہوگئے۔ بعدازاں 78 مظاہرین کو فوجی ٹرکوں میں بھر کر لے جایا گیا، جہاں آکسیجن کی کمی کے باعث ان کی موت واقع ہوگئی۔
گزشتہ سال اگست میں ایک صوبائی عدالت نے متاثرین کے اہل خانہ کی جانب سے 7 اہلکاروں کے خلاف دائر فوجداری مقدمے کو منظور کر لیا تھا، جن میں ایک سابق فوجی کمانڈر بھی شامل تھا، جو 2023 میں شیناواترا کی فیو تھائی پارٹی کے لیے پارلیمان کے لیے منتخب ہوا تھا۔