جرمنی نے 28 افغان شہریوں کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے کر ان کے وطن واپس بھیج دیا ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن ہیبشٹرائٹ نے 28 افغان شہریوں کو سزا یافتہ مجرم قرار دیا ہے۔
ہیبشٹرائٹ نے ایک بیان میں کہا کہ جرمنی کے سلامتی کے مفادات، قومی سلامتی کو واضح طور پر خطرے میں ڈالنے والے مجرموں اور افراد کے تحفظ کے دعوے سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
ہیبشٹرائٹ کا کہنا ہے کہ ملک بدری کا کام کئی ماہ سے جاری ہے۔
رپورٹس کے مطابق افغانوں کو ملک بدر کرنے کی یہ کارروائی سولنگن قصبے میں چاقو کے جاں لیوا حملے کے ایک ہفتے بعد ہوئی ہے جس میں ملوث مشتبہ شخص شامی شہری ہیں جنہوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔
ملزم کو گذشتہ سال بلغاریہ ڈی پورٹ کیا جانا تھا لیکن مبینہ طور پر وہ کچھ عرصے کے لیے غائب ہو گئے اور ملک بدری سے بچ گئے۔
وفاقی ریاستوں کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان جرائم میں ریپ، سنگین آتشزنی اور قتل کی وارداتیں شامل ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولز نے جمعے کو لائپزگ کے قریب مقامی انتخابی مہم کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ جرائم کا ارتکاب کرنے وال پر بھروسہ نہیں کر سکتے، ہم ایسا کرنے کے طریقے تلاش کریں گے۔‘
تاہم جرمنی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل جولیا ڈوچرو نے افغانوں کی ملک بدری پر تنقید کی ہے۔
جمعے کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حکومت انتخابی مہم کے دوران سیاسی دباؤ کے سامنے جھک گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان محفوظ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔