نیویارک کی اعلیٰ عدالت نے 2020 میں جنسی جرائم کے الزامات میں مجرم قرار پانے پانے والے نامور ہولی ووڈ فلم پروڈیوسر ہاروی وائنسٹائن کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔
نیو یارک کی عدالت نے کہا کہ ہاروی کو شفاف ٹرائل کا موقع ہی نہیں دیا گیا، گواہوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات ہاروی پر عائد الزامات کا حصہ ہی نہیں تھے۔
عدالت نے مقدمہ از سر نو شروع کرنے کا حکم دے دیا۔
تاہم اطالوی ماڈل کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے ایک اور مقدمے میں لاس اینجیلس کی عدالت 16 برس قید کی سزا سناچکی ہے جس کی وجہ سے فلم پروڈیوسر جیل میں ہی رہیں گے۔
آسکر ایوارڈ یافتہ پروڈیوسر کے خلاف الزامات 2017 میں کھل کر سامنے آئے تھے اور ان پر مجموعی طور پر 80 سے زائد خواتین نے الزامات لگا رکھے ہیں۔
ان پر الزامات سامنے آنے کے بعد ہی دنیا بھر میں ’می ٹو مہم‘ کا آغاز ہوا تھا، جن جرائم کا انہیں مجرم ٹھہرایا گیا ان میں جنسی دست درازی اور مجرمانہ جنسی فعل کرنا شامل تھا۔
ہاروی وائنسٹن کے خلاف کیس 3 الزامات پر مبنی تھا، پہلا 2013 میں ایک ہوٹل کے کمرے میں ایک ابھرتی ہوئی اداکارہ جیسیکا من پر جنسی حملہ اور ریپ، دوسرا 2006 میں پروڈکشن اسسٹنٹ مریم ہیلی کو زبردستی جنسی استحصال کا نشانہ بنانے اور تیسرا 1990 کی دہائی میں اداکارہ اینا بیلا شیورہ کو ان کے اپارٹمنٹ میں ریپ کا نشانہ بنانا تھا۔
نیویارک کی ایک عدالت نے ہاروی کو 2006 میں سابق پروڈکشن اسسٹنٹ مریم ہیلی کے ساتھ جنسی زیادتی اور 2013 میں اداکارہ جیسیکا مان کو ریپ کرنے کا مجرم قرار دیا۔
انہیں ایک ایسے کیس میں 23 سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔