غزہ میں اسرائیلی فوج سے نبرد آزما فلسطینی تنظیم حماس“ پیشگی جنگ بندی کے اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات سے متعلق امریکی تجویز کو قبول کرلیا ہے۔
حماس نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے طے پائے گئے سمجھوتے کے پہلے مرحلے کے تحت اسرائیلی فوجیوں سمیت تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت شروع کرنے کی امریکی تجویز کو قبول کرلیا ہے۔
تنظیم کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ حماس اپنے اس مطالبے سے دست بردار ہوگئی ہے کہ پہلے اسرائیل مستقل جنگ بندی کا معاہدہ کرے، پھر قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
بین الاقوامی سطح پر ثالثی کوششوں میں شامل فلسطینی عہدیدار نے بتایا کہ اگر اسرائیل یہ تجویز قبول کرلے تو فریم ورک معاہدہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان نو ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اسرائیل کی مذاکراتی ٹیم میں شامل ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب معاہدہ طے پا جانے کا حقیقی موقع ہے، کیونکہ اس سے قبل اسرائیل جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس کی تمام شرائط کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ترجمان نے خبر پر فوری طور پر اپنا مؤقف نہیں دیا، تاہم ان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بات چیت اگلے ہفتے بھی جاری رہے گی اور فریقین کے درمیان اختلافات اب بھی باقی ہیں۔
حماس کے افسر نے کہا کہ نئے منصوبے کے تحت ثالث ممالک غزہ میں عارضی جنگ بندی، امداد کی فراہمی اور اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء کی ضمانت دیں گے جب کہ معاہدے کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے بالواسطہ بات چیت جاری رہے گی۔
علاوہ ازیں حماس نے غزہ میں کسی بھی نام اور جواز کے ساتھ غیر ملکی افواج کی آمد اور تعیناتی کو مسترد کردیا۔